(گزشتہ سے پیوستہ)
گائو تکیہ کے ساتھ احسان صاحب بیٹھے ہوتے ،سامنے لوگ براجمان ہوتے ،جن میں زیادہ تر ان کےشاگرد ہوتے۔ شعرو ادب کی باتیں بھی ہوتیں اور اس دوران احسان صاحب درمیان درمیان میں من گھڑت واقعا ت بھی سناتے۔ اس طرح کی کچھ باتیں ان کی نثری کتاب ’’جہانِ دانش‘‘ کی پہلی جلد میں بھی موجود ہیں احسان صاحب بتاتے تھے انہیں شیر کے شکار کا بہت شوق تھا وہ کئی دن سے ایک شیر کے پیچھے تھے مگر وہ پکڑائی نہیں دیتا تھا ایک دن انہیں خوب سوجھی چار پانچ کلو گائے کا گوشت خریدا اور اس میں ایک کلو افیم ڈال کر شیر کی گزرگاہ میں رکھ دیا، شیر آیا اور گوشت پر جھپٹ پڑا اس نے گوشت کھانا شروع کیا اور جب آدھا کلو افیم بھی اس کے پیٹ میں گئی اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں کہ ہم نے گولی داغ دی۔ ایسے اور اس جیسے بہت سے واقعات’’ جہان دانش‘‘ میں ملتے ہیں، اس سے قطع نظر وہ بہت اعلیٰ اور دلچسپ کتاب ہے ۔
ایک دن پاک ٹی ہائوس میں بیٹھے ہوئے اقبال ساجد نے مجھے غزل سنائی غز ل حسب معمول بہت اعلیٰ تھی مجھے ایک مصرعے میں کچھ جھول سانظر آیا حالانکہ مجھے اوزان کا ککھ پتا نہیںمگر وزن کی غلطی بہت کم ہوتی ہے میرا اعتراض سن کر اقبال ساجد بھڑک اٹھا اور بحث شروع کر دی جب بات لمبی ہوگئی میں نے کہا یار اقبال یوں کرتے ہیں استاد کی رائے لے لیتے ہیں چنانچہ ہم چائے کا آرڈر دے کر اوپر چلے گئے جہاں احسان دانش حسب معمول کھدر کا برائون رنگ کا سوٹ اور سر پر ترکی ٹوپی پہنے تشریف فرما تھے انہوں نے ساجد کو دیکھتے ہی کہا ’’بھوتنی کے تو پھر آ گیا‘‘ ساجد شاید اس جملے کا عادی ہو چکا تھا اس نے کوئی ردعمل دکھائے بغیر اپنی غزل ان کےسامنے رکھ دی ۔احسان صاحب نے ایک نظر غزل پر ڈالی او رپھر ایک شعر کے حوالے سے غلطی کی نشاندہی کی، یہ وہی شعر تھا جس کے حوالے سے میں نے نشاند ہی کی تھی ۔احسان دانش کا ذکر ادھورا رہ گیا تھا، وہ بہت عمدہ کلاسیکی نوعیت کے شاعر تھے جوانی میں مزدوری کرتے رہے گارے میں پائوں ڈالتےاور پھر اسے چھت تک پہنچاتے مگر انہوں نے جاگتے میں جو خواب دیکھے ان خوابوں کو پھر سونے نہیں دیا اور یوں اردو کے نمایاں شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ آغا شورش کاشمیری ایسا نقادشاعر اپنی کوئی نظم احسان صاحب کو دکھائے بغیر ’’چٹان‘‘ میں اشاعت کے لئے نہیں دیتا تھا۔ احسان صاحب دیکھنے میں بہت سنجیدہ نظر آتے تھے مگر بہت ’’شرارتی ‘‘تھے ۔ ایک دن مشاعرے میں پوری متانت کے ساتھ بیٹھے تھے میں اور امجد بھی ان کے برابر میں تھے طفیل ہوشیاری بھی ہمارے درمیان تھے انہیں بیٹھے بیٹھے سو جانے کی عادت تھی اور یہ سوچے بغیر کے مشاعرہ براہ راست نشر ہو رہا ہے سو گئے چلیں یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر ساتھ خراٹے لینا!احسان صاحب نے مجھے کہا ذرا ادھر دیکھو میںطفیل صاحب کا منظر پہلے ہی دیکھ چکا تھا، میں نےعرض کی ’’جی دیکھ لیا‘‘ پوچھا کیا لگ رہا ہے، میں اس کے جواب میں کچھ کیا کہتا ،میں چپ رہا اس پر احسان صاحب نے کہا غور سے دیکھو ایسے نہیں لگتا کسی گوریلے کو گولی لگی ہے اور یہ کہتے ہوئے احسان صاحب پکا منہ بنائے بیٹھے رہے اور میرے اور امجد کا صرف قہقہہ نہیں گونجا مگر قہقہہ روکنے کی وجہ سے ہمارے چہرے کی رگیں پھولنے کے قریب قریب پہنچ چکی تھیں۔
احسان صاحب نئی انارکلی کے پررونق بازار میں رہتے تھے نیچے چائے کی دکان تھی جونہی کوئی مہمان وارد ہوتا فوراً چائے کا آرڈر دیتے مگر میرے جیسے مہمان بننے کے نااہل افراد سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے چائے کا آرڈر خود دے کر اگلا قدم اٹھاتے۔خیر بات ہو رہی تھی ساجد کی غزل کی جس کے شعر کی احسان صاحب نے بھی نشان دہی کردی تو اس نے غزل واپس لی اور چلتے ہوئے کہنے لگا آپ کو شاعری کا کچھ پتا نہیں ۔
اب چلتے چلتے ایک واقعہ اقبال ساجد کا بھی سن لیں انتہائی غریب مگر شعر کے معاملے میں پورا بدلحاظ وہ اپنی غربت کی وجہ سے کہ اس نے ساری عمر کوئی کام نہیں کیا تھا چنانچہ جس سے اسے کچھ توقع ہوتی تھی تو جی بھر کر اس کی خوشامد کرتا مگر اس کے کسی برے شعر کی تعریف نہیں کرتا تھا اس سے قطع نظر اس نے ایک دفعہ ایک غزل کہی جس کا مطلع تھا ۔
فراق و فیض و ندیم وفراز کچھ بھی نہیں
نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں
میں نے کہا یار فراز اے کلاس شاعر ہیں مگر تم نے ان کو برے جوڑوں کےساتھ کھڑا کر دیا سن کر بولا مجھے بھی پتہ ہے مگر فراز یہاں قافیے کی مجبوری سے آیا ہے !(جاری ہے )