(گزشتہ سے پیوستہ )
سینٹ میری MAGDALENE چرچ کا شمار لاہور کے خوبصورت اور بلند ترین گرجا گھروں میں ہوتا ہے ۔اس کا ٹاور بہت بلند ہے اور میاں میر کینٹ (لاہور چھائونی) میں یہ دورسے نظر آجاتا ہے۔ ایک زمانے میں اس گرجا گھر کے ارد گرد بہت درخت اور ہریالی تھی انارکلی چھائونی جب میاں میر چھائونی بنی تو یہ سارا علاقہ بہت کھلا اور کھیتوں پر مشتمل تھا۔
ہم نےلاہور میں انگریزوں کی تعمیر کردہ بے شمار عمارات ،ہسپتال،میڈیکل کالج دیکھے ہیں اور ہم نے 1937ء سے 1947ء تک کے بعض پرانے اخبارات کو صرف اس وجہ سے دیکھا کہ یہ معلوم کریں کہ انگریز جب لاہور میں کوئی ہسپتال،اسکول، کالج یا دیگر تعمیرات کرتےتو وہ اس کی پبلسٹی کرتے تھے یا نہیں۔
ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انگریزوں نے نہ کہ اس طرح جیسے کہ ہماری موجودہ وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف اور اس سے قبل میاں شہباز شریف نے پنجاب میں بطور وزیر اعلیٰ ہر نئی عمارت اور منصوبے پر اپنے نام کی تختیاں لگائیں انگریزوں نے لاہور میں پانی والا تالاب بنایاتو لاہور کے چودہ دروازوں کے باسیوں کے لئے ایک قابل فخر کام کیا، آج بھی اس پانی والا تالاب سے اندرون شہر کے لوگوں کو پانی ملتا ہے البتہ لاہور کا پہلا واٹر پمپنگ اسٹیشن جو کہ آج سے چند سال پہلے تک کام کر رہا تھا وہ حکومت کی نااہلی اور غفلت سے تباہ ہوگیا حالانکہ وہ بڑا تاریخی واٹر پمپنگ اسٹیشن ہے جس نے لاہور شہر کے لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے میں بہت اہم کام سرانجام دیا تھا لیکن انگریزوں کے ناموں کی کوئی تختی ہمیں تو لاہور کی کسی گلی، کوچے، محلے اور بازار میں نظر نہیں آئی اگر یہی پانی والا تالاب موجودہ حکومت نے بنایا ہوتا تو پھر اندرون لاہور شہر کی ہر گلی میں حکومتی لوگوں کے ناموں کی تختیاں لگی ہونی تھیں عوام کے ٹیکسوں سے جو عوامی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں ان پر کسی بھی وزیر/وزیر اعلیٰ /ایم پی اے/ ایم این اے کا نام لگانے کی یہ روایت اب ختم ہونی چاہئے کیونکہ یہ تمام منصوبے کوئی وزیر /وزیر اعلیٰ اپنی جیب سے تو نہیں مکمل کر رہے۔انگریزوں نے لاہور شہر میں بہت کام کیا بلکہ پورے برصغیر میں انہوں نے لاتعداد اسکولز/کالجزاور عمارات تعمیر کیں مگر ہمیں شاید کہیں ان کا نام ملا ہو اور نہ انگریزوں نے عوامی فلاح وبہبود کے منصوبے شروع کرتے وقت اتنا شور مچایا ہو۔ بہرحال یہ بھی پیسے کا ضیاع ہے کہ بڑےبل بورڈز اورا سکرینیں لگائی جائیں اس پیسے کو لوگوں کی فلاح کے لئے خرچ کرنا چاہئے ۔بات ہو رہی تھی سینٹ میری چرچ میاں میر کینٹ کی اس چرچ کے ٹاور /مینار کی بلندی 130فٹ ہے اور اوپر تک سیڑھیاں جاتی ہیں ہم نے وہاں تک خودجاکر بھی دیکھا ہے اس چرچ کا کنٹرول کبھی کلکتہ ڈریوسیس کے پاس تھا انگریزوں نے برصغیر میں جتنے بھی گرجا گھر تعمیر کئے وہ مختلف ڈائیسس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں یعنی ان کا ایریا مقرر ہوتا ہے کہ ایک ڈائیسس کے انڈر کتنے چرچ اور اسکولز ہوںگے۔
جب سینٹ میری چرچ تعمیر کیا گیا تو اس چرچ کے ارد گرد بہت سارے درخت لگائے گئے اب یہاں پر چرچ کے نزدیک صرف چند ایک درخت رہ گئے ہیں۔ یہ لاہور کا پہلا اور واحد چرچ تھا جو مکمل طور پر لکڑی سے تعمیر کیا گیا تھا مگر یہ چرچ جنگ کے دوران جل گیا تھا انگریز حکومت نے دوبارہ چرچ اسی جگہ پر ہی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک فوجی انجینئر کیپٹن جی این سارپ کو اس کے ڈیزائن اور دیگر تعمیراتی معاملات کا ذمہ دیا گیا ۔
آپ اگر لاہور میں گرجا چوک میں جائیں تو آپ کو دور سے یہ بلند وبالا چرچ نظر آئے گا اس کے مینار کی بلندی 130فٹ ہے اور اوپر تک سیڑھیاں جاتی ہیں ہم نے وہاں تک خود جاکر بھی دیکھا ہے اس چرچ کا کنٹرول کبھی کلکتہ ڈائیسس سے ہوتا تھا۔
یہ چرچ سفید چونے سے تیار کیا گیا ہے اس چرچ کی چھت لکڑی کی ہے اس کے ارد گرد صرف درخت اور کھلی جگہ تھی آج تو مارکیٹ اور کتھیڈرل اسکول کی وجہ سے چرچ کے ارد گرد خالی جگہ اس طرح نظر نہیں آتی جیسی کبھی تھی بلکہ آج سے صرف پچاس برس قبل اس گرجا گھر کے ارد گرد کا علاقہ بڑا صاف ستھراوسیع اور کھلا تھا۔سینٹ میری چرچ میں انگریز فوجیوں کی رائفلیں رکھنے والے مخصوص لوہے کے فریم آج بھی موجود ہیں جس کے اندر انگریز فوجی اپنی رائفلوں کو رکھ کر،عبادت کیا کرتے تھے اس چرچ میں آج بھی 170سالہ فرنیچر موجود ہے وہ تاریخی بینچز آج بھی موجود ہیں جہاں پر انگریز فوجی چرچ میں عبادت کیا کرتے تھے ۔
آج ہم لاہور کے ایک ایسے گرجا گھر کو کوئی تیس برس بعد دیکھنے چلے گئے یہ چرچ لاہور چیف کورٹ لاہور ہائیکورٹ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان لاہور آفس سے بھی پہلے کا ہے یہ چرچ جو کہ نابھہ روڈ پر ہے 1860ء میں تعمیر کیا گیا تھا اس قدیم اور چھوٹے سے چرچ کا نام St.Andrew's Presbyterian Churchہے ۔ آغاز میں یہ چھوٹا سا گرجا گھر، انارکلی میں گورا فوج کی عبادت کے لئے اس کو تعمیر کیا گیا تھا۔ لاہور میں جب انگریز آئے تو لاہور میں مقبرہ انارکلی میں پہلا گرجا دوسرا تار گھر میں اور تیسرا نابھہ روڈ پر تعمیر کیا گیا انگریز فوجی ان گرجا گھروں میں عبادت کے لئے جایا کرتے تھے ۔اس تاریخی چرچ کے لان کے نیچے سے اورنج ٹرین گزرتی ہے ہم جب اس چرچ کے پادری سے با ت چیت کر رہے تھے تو کھڑکیوں اور فرش میں ایک عجیب قسم کی تھرتھراہٹ پیدا ہوئی تو ہمارے معلوم کرنے پر انہوں نے ہمیں لان دکھایا جس کے نیچے اورنج ٹرین گزرتی ہے حالانکہ حکومت نے اورنج ٹرین کی لائن ڈالتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ یہ چرچ سے بہت دور ہو گی اب یہ ٹرین چرچ کے نیچے سے گزر رہی ہے جس سے اس قدیم عمارت کو نقصان پہنچے کا شدید خطرہ ہے ۔(جاری ہے )