(گزشتہ سے پیوستہ)
1964 کے نقوش کے آپ بیتی نمبرمیں وہ نامور شخصیات بھی شامل ہیں جو اس دور میں حیات تھیں اور انہوں نے خود اپنی زندگی کی جھلکیاں نقوش کو بھیجیں اور وہ نامور افراد بھی جو حیات نہیں تھے لیکن مدیر محمد طفیل نے ان کی مختصر سوانح عمریوں کو اس نمبر کا حصہ بنایا ۔
اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی زندگی پر نظر ڈالیے:
دو شادیوں کی ناکامی ولی عہد سے محرومی اور پھر تیسری شادی کیلئے بادشاہ کی 19سالہ بیٹی شہناز پہلوی نے اپنے لیے سوتیلی ماں اور بادشاہ کے لیےتیسری ملکہ اپنے سے دو سال بڑی 21سالہ فرح دیبا کو خود منتخب کیا۔ فرح دیبا بادشاہ سے 20سال چھوٹی تھیں وہ ولی عہد کی ماں بھی بنیں، زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ فرح دیبا حیات ہیں اور واشنگٹن ڈی سی اور فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ نواب مرزا خان داغ کی آپ بیتی پڑھتے ہوئے مجھے شمس الرحمن فاروقی کے ادبی شاہکار کئی چاند تھے سر آسماں کی جادوئی اور سحر انگیز نثر یاد آئی۔ یہاں تو دو سطروں میں لکھا ہے کہ ان کے والد نواب شمس الدین خان ریاست فیروز پور جھرکہ کے نواب تھے اور ان کی عمر پانچ برس بھی نہ ہوئی تھی کہ والد کو پھانسی دے دی گئی جس کی وجہ فریزر ایجنٹ گورنر جنرل سے والد کے تعلقات کی خرابی تھی۔
یہ باب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ناول میں جس تخلیقی مشاقی اور ہنر سے تحریر کیا وہ بے مثال ہے کئی چاند تھے سر آسماں مرزا داغ کی والدہ وزیر بیگم ہی کی حیات پر لکھا گیا ایک شاہکار ناول ہے خیر میں کہاں سے کدھر کو مڑ رہی ہوں واپس نقوش پر آتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی آپ بیتی میں ہمیں ایک بیمار بچہ ملتا ہے جو اپنے بچپن میں اس قدر بیمار پڑا کہ بارہا اسے احساس ہوا کہ جیسے اسے اس کی ماں سے دور موت کے افق کے اس پار پھینکا جا رہا ہے وہ اس تکلیف میں کئی بار تکیے میں سر دے کر روتا رہتا اور سینکڑوں بار ڈراؤ نے خواب اسے ڈراتے ہیں کبھی کبھی ماں بھی اس کی بیماری سے تنگ آجایا کرتی۔
ہاجرہ مسرور ایک خط مدیر کے نام لکھتی ہیں۔
طفیل بھائی! زندگی میں بڑے بڑے واقعات کبھی کبھی یوں دل پر گزرتے ہیں جیسے معمولی بات ہو لیکن ایک ننھا سا اشارہ کبھی پہاڑ بن کر دل پر گرتا ہے اور کچل ڈالتا ہے۔چھ سات صفحات پر اپنی آپ بیتی کیسے لکھوں۔ پورے تین صفحات لکھنے کے بعد بھی وہ لکھتی ہیں مجھے لگتا ہے آپ بیتی نہ لکھنے کی معذرت میں ٹھیک انداز میں نہیں کر سکی۔ جوش ملیح آبادی کی زندگی کی جھلکیوں میںپہلے پہل ہماری ملاقات بیمار اور لاغر بچے سے ہوتی ہے جو زنانے میں لونڈیوں باندیوں، کھلائیوں، پیش خدمتوں، استانیوں اور کہانی کہنے والیوں کے ایک لشکر میں چلتا پھرتا کھیلتا اور لاڈ اٹھواتا نظر آتا ہے پھر وہی بچہ اس بے جا لاڈ پیار سے بگڑ کر غصیلے امیر زادے کے روپ میں بہن بھائیوں پر اور ملازموں کے بچوں پر دھونس جماتا اور ان کی پٹائیاں کرتا نظر آتا ہے۔ ماں کا لایا دودھ کا پیالہ پسند نہ آتا اسے زمین پر پٹخ دیتا اس مزاج کا بچہ مگر فطرت کا عاشق بارش کا دیوانہ تھا اور ساتھ ہی ساتھ غریبوں کے لیے بے انتہا ہمدردی کا جذبہ رکھنے والا تھا۔مزاج کی یہ انتہائیں جوش صاحب کے تخلیقی وجود کی بنیاد بنیں۔ ایک اور آپ بیتی جو مختلف اور دلچسپ ہے وہ اردو زبان کے ہمہ جہت ادیب سفرنامہ نگار مورخ سلسلہ چشتیہ کے صوفی خواجہ حسن نظامی کی ہے۔ بیگمات کے آنسو 1857کے غدر کے بعد کے حالات پر لکھی ان کی مشہور لازوال تصنیف ہے۔
وہ بستی درگاہ نظام الدین اولیاء دہلی میں پیدا ہوئے ان کا بچپن لڑکپن سب اسی ماحول میں گزرا والد درگاہ سے وابستہ تھے غربت کا عالم یہ تھا کہ خواجہ حسن نظامی درگاہ پر آنے والے زائرین کی جوتیوں کی حفاظت کرنے کا معاوضہ لیتے۔ بعد ازاں عملی زندگی میں بھی انہوں نے خود کو نذر نیاز کے پیسے سے دور رکھنےکیلئے اپنی گزر اوقات کے لیے مزدوری کرنے کو ترجیح دی۔
اس مقصد کے لیے وہ اپنے سر پر کتابیں اور کمپنیوں کے نقشے اور فوٹو اٹھا کر بیچا کرتے تھے ایسے ہی ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ کچھ امیر مسافروں نے میرا نام سن کر پوچھا ایک اور خواجہ حسن نظامی بھی ہیں جو اخباروں میں عمدہ مضمون لکھتے ہیں وہ کہاں رہتے ہیں میں نے ان کو یہ نہ بتایا کہ وہ میں ہی ہوں ان کو پتہ بتا دیا ہے کہ وہ درگاہ میں رہتے ہیں، اگلے روز وہ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میں اتنا غریب ہوں کہ مجھے اپنی گزر اوقات کیلئے اپنے سر پر سامان اٹھا کر بیچنا پڑتا ہے لیکن میں نے اس میں کوئی ہتک محسوس نہیں کی۔ بعد ازاں بھی خواجہ حسن نظامی کا ذریعہ معاش دواؤں اور کتابوں کی فروخت تھا۔ خواجہ حسن نظامی نے اپنی ظاہری اور شخصی کمزوریوں کو دیانتداری سے بیان کیا ہے۔ ایک جگہ لکھا کہ 15 سال کی عمر میں تھیٹر کا شوق ایسا چرایا کہ درگاہ سے رات کے وقت نذر نیاز کے کچھ پیسے لے کر وہ پیدل تھیٹر دیکھنے نکل جاتے ساری رات وہاں تھیٹر تماشا دیکھتے اور صبح سویرے آکر درگاہ میں سو رہتےصبح جگراتے سے سوجی سرخ آنکھیں دیکھ کرلوگ گمان کرتے کہ لڑکے نے ساری رات عبادت میں گزاری ہے۔ پھر لکھا کہ بچپن میں نذرکے پیسوں میں معصومانہ ہیرا پھیری آج بھی دل پر بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ہائے کیا لوگ تھے۔
158 زندگیوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کبھی بادشاہوں، امر، رؤسا کے دولت کے گہواروں میں پلتے ہوئے بچپن کی جھلکیاں دیکھیں تو کبھی عالموں، دانشوروں لکھاریوں کے عسرت زدہ مکانوں میں بسر ہونے والی زندگیوں پر نگاہ کی۔ بادشاہوں کے عروج وزوال میں عبرت کے سامان تھے تو درویشوں عالموں اور لکھاریوں کی مشقت بھری توکل سے لبریز تخلیقی زندگیوں سے سیکھنے کو بہت کچھ میسر آیا۔ نقوش کا۔ آپ بیتی نمبر مدیر محمد طفیل کا ناقابل فراموش ادبی کارنامہ ہے۔