• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد محسن علی، حیدرآباد

’’خیر سے اپنی آسیہ شادی کی عُمر کو پہنچ رہی ہے۔ اب ہمیں اِس کےجہیز کی تیاری شروع کردینی چاہیے، تاکہ جیسے ہی کوئی مناسب رشتہ ملے، ہاتھ پیلے کردیں۔‘‘ بیگم کے اِن جملوں نے صدیقی صاحب کی راتوں کی نیند اُڑا دی تھی، لیکن وہ اپنی اہلیہ کو یہ نہیں بتا پائے کہ پچھلے چند ماہ سے اُن کا بجٹ بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بچت تو دُور کی بات، مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی تن خواہ ختم ہونے لگی ہے اور اس تنگ دستی کے عالم میں جہیز کی تیاری اِک ناممکن اَمر ہی ہے۔

صدیقی صاحب کی زندگی میں حساب کتاب کو خاصی اہمیت حاصل تھی، جس کی دو وجوہ تھیں۔ پہلی یہ کہ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے ریاضی اُن کا پسندیدہ مضمون تھا اور دوسری یہ کہ وہ ایک فیکٹری میں کھاتوں کی دیکھ بھال کی ذمّے داری انجام دے رہے تھے۔ گرچہ انہوں نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ’’بڑا آدمی‘‘ بننے ہی کے خواب دیکھے تھے، لیکن بدقسمتی سے نو عُمری ہی میں یتیم ہوگئے اور اہلِ خانہ کی کفالت کی ذمّےداری کا بوجھ اُن کے ناتواں کاندھوں پرآن پڑا۔ 

وہ تو بھلا ہو فیکٹری کے مالک کا، جس نے ان کے مرحوم باپ کی نمک حلالی کی لاج رکھتے ہوئے انہیں مِل میں ملازم رکھ لیا اور یوں گھر کے دال دلیے کا بندوبست ہوگیا، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ اُن کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب، خواب ہی رہ گیا۔ وہ فیکٹری کے کھاتوں میں ایسے اُلجھے کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔

آج اُن کا بیٹا یونی ورسٹی اور بیٹی کالج میں زیرِ تعلیم تھی۔ زندگی کے ہر معاملے میں حساب کتاب اور شروع ہی سے کم آمدنی میں کفایت شعاری کے ساتھ زندگی گزارنے کی اُن کی مشق ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ قلیل آمدنی میں نہ صرف اپنے بچّوں کو تعلیم دلوا رہے تھے، بلکہ اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رکھے ہوئے تھے۔ اپنی کفایت شعاری کی عادت کے سبب انہوں نے نہایت سادہ زندگی گزاری تھی اور اولاد کو بھی سادگی اختیار کرنے ہی کا درس دیا تھا۔ 

وہ تن خواہ ملنے سے قبل ہی گھر کا بجٹ بنا لیتے اور پھر اُسی کے مطابق رقم خرچ کرتے، لیکن اب تو منہگائی کے عفریت نے ہر شے ہی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور پھر جب مُلک کے حُکم راں عوام کی جانب سے غافل ہوجائیں، تو صدیقی صاحب جیسے محنت کَشوں کی نیندیں اُڑ ہی جایا کرتی ہیں۔ اُنہیں اب اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ اُن کی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ بجٹ بنائیں، کیوں کہ بجٹ بنانا، تو صرف حکومتوں کا کھیل ہے، جس میں عام شہری کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔

ایک روز جب دُکان دار نے مہینے بھر کے راشن کا بِل ان کےسامنے رکھا، تو وہ جھلاّ کر بولے، ’’ارے میاں! کیا اب ہمیں بھی زیادہ دام لگا رہے ہو؟‘‘ اس شکوے پر دُکان دار بھی پھٹ پڑا، ’’اماں صدیقی صاحب! کس دُنیا میں ہو…ہر سُو منہگائی نے قیامت مچا رکھی ہے۔ اب جب ہمیں آگے ہی سے منہگا مال ملے گا، تو ہم اُسے پرُانے داموں میں کیسے بیچیں گے؟ آپ ہی بتاؤ۔‘‘ یہ سُن کر صدیقی صاحب اپناسا منہ لےکرخاموش ہو گئے۔ چُپ چاپ رقم دُکان دار کے حوالے کی اور بقایا اگلے ماہ کے کھاتے میں ڈلوا کر واپس آگئے۔

صدیقی صاحب کے بیٹے نے بھی کئی بار کوشش کی کہ یونی ورسٹی سے واپسی کے بعد کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرلے، تاکہ باپ کا ہاتھ بٹا سکے،لیکن اُنہوں نے ہر بار اُسے سختی سے ڈانٹ دیا اور ساری توجّہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھنے کی تاکید کی۔ چُوں کہ بیٹے کی تربیت میں سعادت مندی اور قناعت پسندی کا عُنصرغالب تھا، لہٰذا وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی باپ کی حکم عدولی کی جرأت نہ کرسکا۔ 

دراصل، صدیقی صاحب نہیں چاہتے تھے کہ جن حالات کا سامنا اُنہیں کرنا پڑا، وہی کٹھن وقت اُن کی اولاد بھی دیکھے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اُن کا بیٹا اپنی تعلیم مکمل کرکے بڑا آدمی بنے، تاکہ بیٹے کی صُورت ہی سہی، اُنہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل سکے۔ لیکن دوسری جانب ہوش رُبا منہگائی کو دیکھتے ہوئے اُنہیں یہ خوف بھی کھائے جا رہا تھا کہ کہیں حالات اس قدر خراب نہ ہوجائیں کہ اُن کے فرزند کو اپنی تعلیم مکمل کرنےسے قبل ہی کہیں ملازمت کرنی پڑجائے۔ 

سو، صدیقی صاحب نے اپنی آمدنی میں اضافے کے طریقے ڈھونڈنے شروع کردیئے۔ سب سے پہلے اُن کے دل میں ملازمت کے ساتھ کوئی کاروبار شروع کرنے کا خیال آیا، جسے انہوں نے اگلے ہی لمحے یہ سوچ کر مسترد کردیا کہ کوئی معمولی سا کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی وقت اور سرمائے دونوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور فی الحال ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں۔ پھر کافی سوچ بچار کے بعد اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ جیسے ہی سیٹھ صاحب گرمیوں کی چُھٹیاں گزارنے کے بعد لندن سے واپس آئیں گے، وہ اُن سے تن خواہ میں اضافے کی درخواست کریں گے۔

جب اللہ بخشے بڑے سیٹھ صاحب زندہ تھے، تو ہرسال ملازمین کو بونس ملتا تھا یا اُن کی تن خواہوں میں اضافہ ہوتا تھا، لیکن چھوٹےصاحب تو… ماضی کی یاد آتے ہی اُن کے دِل میں ایک ٹیس سی اُٹھی کہ اےکاش! وہ کوئی سرکاری ملازمت ہی حاصل کر لیتے، تو ہر سال تن خواہ میں اضافہ تو ہوتا رہتا، بلکہ اب تو وہ ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چُکے ہوتے۔

وگرنہ غریب آدمی تو تاحیات ریٹائر نہیں ہوتا۔ مُلک کے حالات چاہے جیسے بھی ہوں، سرکاری ملازمین احتجاج کرکے اپنی تن خواہ بڑھواہی لیتے ہیں، جس کے بعد حکومت ٹیکسز لگا کر ہر چیز مزید منہگی کردیتی ہے، جب کہ عام آدمی اگر اپنی تن خواہ بڑھوانے کا مطالبہ بھی کردے، تو اُسے نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے۔

چند روز بعد سیٹھ صاحب فیکٹری آئے، تو صدیقی صاحب نے عرضی لے کر اُن کے دفتر جانے کا فیصلہ کرلیا۔ منیجر صاحب کو جب اُن کے اِس ارادے کا پتا چلا، تو انہوں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار‘‘ بنتے ہوئے اُنہیں اپنے اس جائز مطالبے سے باز رہنے کی ہدایت کی اور سمجھانے لگے کہ ’’صدیقی! تم تو جانتے ہو کہ اب پہلے جیسےحالات نہیں رہے۔ آئے روز کسی نہ کسی کو نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں تن خواہ میں اضافے کی بات کرنا نِری حماقت ہے۔ 

اِسی پر شُکرکرو کہ تن خواہ وقت پر مل رہی ہے۔‘‘ دراصل منیجر صاحب یہ سوچ رہے تھے کہ اگر آج صدیقی صاحب کی تن خواہ میں اضافہ ہوگیا، تو کل اور لوگ بھی درخواستیں لےکر پہنچ جائیں گے اور یوں اُن کے لیے نئی مشکل کھڑی ہوجائے گی۔ صدیقی صاحب منیجر کو جواب میں صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ ’’صاحب! مُجھے سیٹھ صاحب سے ملنے دیں۔ 

مَیں انہیں صرف یہ بتاؤں گا کہ اب میرے حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے، باقی جو سرکار کی مرضی۔‘‘ دراصل، صدیقی صاحب کو اس بات کا ادراک تھا کہ چھوٹے سیٹھ صاحب جانتے ہیں کہ وہ اور اُن کے والد بڑے سیٹھ صاحب کے زمانے ہی سے ان کے وفادار اور نمک خواررہےہیں۔ لہٰذا، وہ بڑے یقین اور اعتماد کے ساتھ چھوٹے سیٹھ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ 

خلافِ توقّع اُنہوں نے نہ صرف صدیقی صاحب کی بات پوری توجّہ سے سُنی، بلکہ خُوب غور وخوص کے بعد اُن کی تن خواہ میں تھوڑا بہت اضافہ بھی کردیا۔ یہ الگ بات کہ اُس کے بدلے اُن کی ذمّے داریوں میں چند برخاست شُدہ ملازمین کے کاموں کا اضافہ بھی کردیا گیا۔ نتیجتاً، اب وہ گھر واپس پہنچنے پر اتنا تھک جاتے کہ کسی سے بات کرنے کی بھی ہمّت نہ رہتی۔

تن خواہ میں اضافے کے چند روز بعد صدیقی صاحب نے خبریں سُننے کے لیے ٹی وی آن کیا، تو اسکرین پر بریکنگ نیوز کی پٹّی چل رہی تھی اور نیوز کاسٹر بڑے زور و شور سے بتا رہی تھی کہ ’’حکومت کا عوام پر ایک اور بم گرانے کا فیصلہ… پیٹرول کے دام بڑھانے کے بعد بجلی کے نرخوں میں بھی ہوش رُبا اضافہ کیا جارہا ہے۔ بجٹ کے بعد عوام پر ایک اور منہگائی بم۔

یاد رہے یہ خبر سب سے پہلے ہمارے چینل نے بریک کی ہے۔ ہم آپ کو ایک بار پھر سے بتاتے چلیں کہ…‘‘ یہ سُن کر صدیقی صاحب نے فوراً ٹی وی بند کردیا اور آنکھیں بند کرکے بستر پر ڈھیر ہوگئے کہ صُبح اُنہیں بہت کام کرنا تھا۔