• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں بجلی کی قلت و لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر سنگین صورت اختیار کر گیا ہے جبکہ بجلی کے نرخ کروڑوں اہل وطن کی قوت برداشت سے کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے تسلیم کیا ہے کہ چند لاکھ بجلی چوروں کی وجہ سے کروڑوں صارفین کو سزا بھگتنا پڑ رہی ہے اور یہ کہ حکومت بجلی چوری روکنے اور بجلی کے واجبات کی وصولی میں توقعات کے مطابق کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ ہم اس ضمن میں یہ اضافہ کریں گے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومتوں کی جانب سے لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ فراہم کرتے چلے جانے اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور سے نافذ نہ کرنے سے کئی کھرب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے جس کا خمیازہ کروڑوں عوام اور قومی معیشت کو بھگتنا پڑتا رہا ہے۔ اس ضمن میں صرف ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے کو چھ ہزار ارب روپے سالانہ یعنی 16؍ارب روپے روزانہ کا نقصان موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہورہا ہے۔ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ حکومت بجلی و ٹیکسوں کے شعبے میں وہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے جن کا وعدہ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کیا گیا تھا کیونکہ حکومت کی ترجیح ٹیکس چوری کرنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے مفادات کا تحفظ کرنا رہی ہے۔
نواز حکومت کی جانب سے قومی بجلی پالیسی کے اجراء کے بعد ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ ’’بجلی پالیسی میں قوم کو جس سنہرے مستقبل کی نوید سنائی گئی ہے اس کے حقیقت کا روپ دھارنے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘۔ ہم نے مزید کہا تھا ’’اگلے 5برسوں میں بھی معیشت میں پائیدار بہتری آنے اور روشن و خوشحال پاکستان کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا (جنگ 15؍اگست 2013ء) یہ امر مسلمہ ہے کہ پانی و بجلی کی قلت دور کرنے، سیلاب سے بچنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے کم از کم دو بڑے اور کئی چھوٹے ڈیم بنانا پاکستان کی اہم ترین ضرورت رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے گزشتہ 40برسوں میں پاکستان میں ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنایا گیا۔ اب سے 8برس قبل اور اس کے بعد اکتوبر 2011ء میں بھاشا ڈیم کا نمائشی افتتاح کرکے عوام کو جھوٹی آس دلائی گئی لیکن عملی پیشرفت نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان نے عالمی بینک سے ایک ارب ڈالر کا نیا قرضہ لیا ہے جبکہ توقع ہے کہ مزید گیارہ ارب ڈالر کے قرضے اگلے پانچ برسوں میں عالمی بینک سے مل جائیں گے۔ عالمی بینک نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑے قرضے کی پیش کش تو کردی ہے لیکن دیامر بھاشا ڈیم کے لئے قرضہ دینے کے لئے وہ تیار نہیں کیونکہ اس ڈیم کے مکمل ہونے سے پاکستان کی معیشت میں پائیدار بہتری آئے گی۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں بھی پاکستان کو بجلی کی قلت کا سامنا رہے گا اور اس کے نرخ عام آدمی کی برداشت سے باہر رہیں گے۔ امریکہ کا پیغام واضح ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے دور رہو چنانچہ وزیر خزانہ ڈار نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اس منصوبے سے وہ خود بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ زرمبادلہ کے ذخائر میں حالیہ اضافے کو حکومت کی معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دیتے رہے ہیں حالانکہ یہ اضافہ بنیادی طور سے کڑی و ناروا شرائط پر بیرونی قرضے لے کر اور مہنگی شرح سود پر یورو بانڈز کا اجرا کرکے اور سعودی عرب کی جانب سے 1.5؍ارب ڈالر کا ’’تحفہ‘‘ ملنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ برآمدات بڑھنے یا غیرضروری درآمدات میں کمی وغیرہ کی وجہ سے ہوتا تو یہ یقیناً ایک مثبت پیشرفت ہوتی مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد ایک بڑا چیلنج یہ درپیش تھا کہ عوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر ٹیکسوں کی وصولی کے حجم میں زبردست اضافہ کیا جائے کیونکہ ٹیکسوں کی مد میں وفاق کی آمدنی سے تو ملکی قرضوں پر واجب الادا سود بھی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے مسلم لیگ (ن) کے منشور کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس ہر حالت میں نافذ کیا جائے گا۔ اگر یہ ٹیکس عائد ہو جاتا تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کرکے 5فیصد کرنے اور پیٹرول، بجلی و گیس کے نرخوں میں کمی کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ ختم ہو جاتا۔ بدقسمتی سے ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے والوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے حکومت نے منشور کو پس پشت ڈال دیا اور یہ حکمت عملی وضع کی کہ بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے و امداد وغیرہ حاصل کر کے ان کی رقوم کے ایک حصے کو ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس طرح حکومت کو داخلی قرضوں پر تقریباً 12فیصد سالانہ سود کی تو بچت ہو جائے گی مگر اس سے معیشت کی تیز رفتار ترقی میں رکاوٹ پڑے گی، روزگار کے کم مواقع میسر آئیں گے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکے گا۔ دانشمندانہ طریقہ صرف یہی ہے کہ داخلی قرضوں و سود کی ادائیگی ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کے ذریعے ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کر کے کی جائے اور بیرونی قرضے صرف پیداواری مقاصد کے لئے حاصل کئے جائیں۔یہ امر تشویشناک ہے کہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے حکمرانوں نے حکومتی شعبے کے کچھ اہم اداروں کی نج کاری کرنے اور حکومتی شعبے کے کچھ انتہائی منفعت بخش اداروں کے حصص غیرملکیوں کو بھی فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ خسارے کا سودا ہو گا۔ پیپلزپارٹی نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ اگر نج کاری کے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا تو وہ پارلیمنٹ کے باہر تادم مرگ بھوک ہڑتال کریں گے۔ نج کاری کمیشن کا یہ دعویٰ بہرحال صحیح نظر آتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور میں مرکز اور صوبوں نے پہلے بھی حکومتی شعبے کے ان اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کیا تھا جن کی نج کاری اب موجودہ حکومت کے دور میں کی جا رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نج کاری کے ضمن میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان عملاً مفاہمت موجود ہے کیونکہ بصورت دیگر ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور سے نافذ کرنا ہوگا جس کے لئے ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان ممبران اور ان کے حامی طاقتور طبقوں کے مفادات متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان کی بیمار معیشت کی بحالی کے لئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے وہ کی ہی نہیں جا رہیں۔ کرپشن، ٹیکسوں و بجلی کی چوری، اسمگلنگ اور تجارت میں انڈر انوائسنگ و اوور انوائسنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ دلی اور چین سے کی جانے والی درآمدات میں بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ ہورہی ہے۔ بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات ٹیکس چوری اور لوٹی ہوئی دولت کو سفید کرنے کا بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس نافذ اور وصول کرنے کے بجائے منشور سے متصادم منفعت بخش اداروں کے حصص فروخت کئے جارہے ہیں۔ یہی نہیں، خود انحصاری کا عزم اور کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والے ہر قیمت پر بے تحاشہ بیرونی قرضے لیتے چلے جارہے ہیں جو کہ اگلی نسل کا مستقبل گروی رکھنے کے مترادف ہے۔ بیرونی قرضوں سے معیشت بہتر بنانے کے لئے جو مہلت ملی تھی وہ ضائع کی جارہی ہے، یہ قومی المیہ ہے۔
تازہ ترین