• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ محض کھلاڑی تھوڑی تھا، وہ تو کلاکار تھا، کلاکار! اسّی کی دہائی میں ابھرنے والے اس کھلاڑی نے فتوحات کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کیا کہ ایک کے بعد ایک اعزاز پاکستان کی گود میں گرتا چلا گیا۔ 1982 کا ورلڈ کپ ہو، اُسی سال کا ایشیا کپ اور ایشین گیمز اور پھر 1984کے لاس اینجلس اولمپکس، اس نےہر بار پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزا ز اپنے نام کیا۔ گیند اس کے پاس کیا آتی، ہاکی سے چمٹ ہی جاتی۔ حریف کے گول کی طرف پیش قدمی شروع کرتا تو ان کے دفاع کو چکرا کر رکھ دیتا، گول کر کے ہی سانس لیتا۔ ہاکی کا تیز ترین گول بھی اس نے ہی اسکور کر رکھا ہے۔ میچ شروع ہونے کے محض آٹھ سیکنڈ کے اندر، سوچئے تو سہی، محض آٹھ سیکنڈ! ماہرین اسے دنیا ئے ہاکی کے دس عظیم ترین کھلاڑیوں میں شمار کرتے ہیں۔ وہ ہاکی کے میدانوں کا سردار تھا، نام تھا حسن سردار۔ اُس شام اُسی حسن سردار سے ملنے کا میں منتظر تھا۔ میں ایک روز قبل ہی کسی سرکاری معاملے میں کراچی پہنچا تھا اور ایک مشترکہ دوست کی وساطت سے حسن سردار سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ وہ گاڑی سے اترے تو میں نے آگے بڑھ کر انکا استقبال کیا۔ لابی کی ایک جانب بیٹھ کر ہم نے چائے کا آرڈر دے دیا۔برف جلد ہی پگھل گئی، حسن سردار بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا ۔میرے استفسار پر کہ کس کھلاڑی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں بتانے لگے، اپنے ہم عصروں میں سمیع اللہ اور بعدازاں شہباز۔ کہنے لگے سمیع اللہ کو فلائنگ ہارس کا خطاب کسی نے ایسے ہی نہیں دے دیا تھا، گیند ملتے ہی ایسے دوڑنے لگتا تھا جیسے ہوا کے دوش پر کوئی گھوڑا سر پٹ بھاگنے لگا ہو۔ عالمی سطح پر پاکستان کی حاکمیت قائم کرنے میں ایئر مارشل نور خان کے کردار کو حسن سردار نے خصوصی طور پر سراہا۔ نور خان کی مردم شناسی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ایک ٹورنامنٹ سے پہلے جب سلیکشن کمیٹی نے مجھے سلیکٹ نہ کیا تو انہوں نے بطور صدر استعفیٰ دینے کی دھمکی دے ڈالی جو کارگر ثابت ہوئی۔ بعدازاں اسی ٹورنامنٹ میں نہ صرف پاکستان کو جتوانے میں حسن سردار نے کلیدی کردار ادا کیا بلکہ پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بھی قرار پائے۔سلیکشن میں ذاتی پسند ناپسند کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ شروع کے ایام میں جب مجھے بتایا جاتا تھا کہ کچھ اہم لوگ آپکے خلاف ہیں تو میں سفارش ڈھونڈنے یا بد دل ہونے کے بجائے، سوچا کرتا تھا کہ میں اس قدر محنت کرونگا کہ مجھے سلیکٹ کرنا مجبوری بن جائے ۔یہ بھی بتایا کہ ہم شکست سے بھی سیکھنے کا پہلو نکال لیتے تھے۔ جس کسی کی غلطی کی

نشاندہی کی جاتی تھی وہ بھی برا نہیں مانتا تھا بلکہ بغور سُن کر اس پر قابو پانے کی کوشش کرتا تھا۔ کہنے لگے میں سمجھتا تھا میں نے کبھی ہاکی پرعبور حاصل نہیں کیا، میرے آخری میچ میں بھی سیکھنے کی گنجائش موجود تھی۔ (شاید یہی وہ سوچ ہے جو کسی کھلاڑی کو عظیم ترین بننے میں مدد دیتی ہے)۔ میں نے انہیں جنوبی پنجاب میں کھیلی جانے والی اسکولز ہاکی لیگ کی بابت بتایا تو کہنے لگے ہاکی کی بحالی کا واحد طریقہ بھی یہی ہے کہ اسکولوں میں ہاکی کا احیا کیا جائے۔ اسی عمر میں کھلاڑی کو آنے والے وقت میں عالمی سطح پر ہاکی کھیلنے کیلئے تیار کیا جا سکتا ہے۔ میرے اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے اپنے بچوں کو ہاکی کھلوائی، بتانے لگے کہ مصطفیٰ میں ہاکی کا شوق دیکھا تو اسے سکِھانے کی ٹھانی۔ ڈھونڈنے لگے تو قرب و جوار میں کہیں ہاکی ہوتی نظر نہیں آئی۔ کسی قدر جستجو کے بعد جہاں ڈھونڈ پائے وہاں آنے جانے میں ہی اس قدر وقت ضائع ہو جانا تھا کہ ہمت ہار بیٹھے۔ سب سے یادگار میچ کا پوچھا تو خود بھی ماضی میں کھو گئے، ہم بھی ساتھ ہو لیے۔ بھارت کے شہر دہلی میں ایشین گیمز کا فائنل تھا اور وہ بھی روایتی حریفوں، پاکستان اور بھارت کے مابین۔ اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پچاس ساٹھ ہزار کے اُس مجمع میں پاکستان کے حامی یہی کوئی سو پچاس ہونگے۔ بھارتی شائقین خود بھی بہت پُرجوش تھے اور اپنے نعروں سے اپنی ٹیم کا حوصلہ بھی بڑھا رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی بھی خصوصی طور پر تشریف لائیں تو بھارتی شائقین اور کھلاڑیوں کا جذبہ دو چند ہو گیا۔ دوسری طرف پاکستانی ٹیم کچھ اور ہی تہیہ کیے بیٹھی تھی۔ میچ شروع ہوا تو ہندوستانی گول پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔ ہندوستانی ٹیم کے محض ایک گول کے مقابل، حسن سردار کے دو گولوں سمیت، پاکستان نے سات گول کیے۔ اندرا گاندھی اس قدر دل برداشتہ ہوئیں کہ میچ ادھورا چھوڑ کر ہی چلی گئیں۔ بھارتی شائقین کو الگ سانپ سونگھ گیا۔ حسن سردار اس میچ کا احوال بیان کر رہے تھے تو ان کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں گویا وہ اس لمحے میں جی رہے ہوں ۔بتانے لگے کہ مینا حسن، ان کی بیگم، میڈم نور جہاں کی صاحبزادی ہیں۔ میں کیا بتاتا کہ ہم جیسے تو اپنے مشاہیر کی بابت تمام خبر رکھتے ہیں ۔حسن سردار شام ڈھلے رخصت ہوئے، اپنی یاد البتہ چھوڑ گئے۔ میں کافی دیر تلک ان کی بابت سوچتا رہا۔ کوئی اور ملک ہوتا، تو ایسے کھلاڑی کے گرد جمگھٹا لگ جاتا۔ میرا بس چلتا تو میں ایک ایک کو پکڑ کر بتاتا کہ ان کے درمیان کون موجود تھا۔ نئی نسل تو شاید اس امر سے آگاہ بھی نہیں کہ کس طرح پاکستان ہاکی پر راج کرتا رہا تھا اور اس نے کیسے کیسے عظیم کھلاڑی پیدا کیے۔ وطنِ عزیز دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ، چار بار عالمی چیمپئن اور تین بار اولمپک گولڈ میڈلسٹ رہ چکا ہے، ملک کے بڑوں کی مگر مسلسل بے حسی اور بے اعتنائی کے سبب اب عالم یہ ہے کہ ہم ایسے ٹورنامنٹ میں شریک ہونے کے اہل بھی نہیں ٹھہرتے۔

(صاحب تحریر سابق کمشنر اور سابق سیکریٹری تعلیم ہیں)

تازہ ترین