• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی محمّد عُمر شازلی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہ نمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور نبیٔ آخرالزّماں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو جو رفقاء نصیب فرمائے، وہ دُنیا میں بعد ازانبیاء سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ 

صحابۂ کرامؓ سیرت، کردار، گفتار اور حضور جانِ دو عالمؐ سے محبّت میں باکمال و یکتا تھے اور اِن جاں نثاران میں ایک ایسی شخصیت بھی تھیں کہ جنہوں نے اپنا تن، من، دھن رسالتِ مآب ﷺ کے قدموں پر قربان کردیا مگر بہ زبانِ حال کہا کہ ؎ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ وہ عظیم ہستی، افضل البشر بعد الانبیاء اور مسلمانوں کے سیاسی و روحانی خلیفۂ اوّل، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔

آپؓ کا نام عبداللہ، کُنیت ابوبکر اور القابات صدیق اور عتیق ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کا خاصّہ ہے کہ آپؓ سفروحضر میں نبی کریمﷺ کے ساتھی رہے اور آپؓ کی صحابیت نصِ قطعی یعنی قرآن پاک کی اس آیتِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ ترجمہ: ’’صرف دوجان سے جب وہ دونوں غار میں تھے، جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘(سوۃ التوبہ: آیت نمبر20) علاوہ ازیں، آپؓ کی فضیلت سے متعلق بےشمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں، جن سے آپؓ کی عظمت و شان عیاں ہوتی ہے، لیکن ذیل میں صرف وہ روایات بیان کی جا رہی ہیں کہ جن کے رواۃ اہلِ بیتِ اطہارؓ ہیں۔

روایت نمبر1۔ خلیفۂ چہارم، امیرالمؤمنین، مولائے کائنات اور شیرِخدا،علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بیٹے، حضرت محمّد بن حنفیہؒ نے ایک دن اپنے والدِ گرامی سے پوچھا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد سب سےافضل و بہتر آدمی کون ہے؟‘‘ تو آپؓ نے جواب دیا کہ ’’ابوبکرؓ‘‘۔ (یعنی گروہِ انبیاء علیہم السلام کے بعد سب سے افضل جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں)۔ بیٹے نے دوبارہ پوچھا۔ ’’اُن کے بعد؟‘‘ آپؓ نے جواباً فرمایا۔ ’’پھر عُمرؓ۔‘‘ فرزند نے سوال کیا کہ ’’اُن کے بعد تو آپؓ ہی کا رُتبہ ہے؟‘‘ تو آپؓ نے (عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے) فرمایا کہ ’’مَیں تو ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری 3671 :)

روایت نمبر2۔ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدینؒ کی خدمت میں حاضر ہو کرسوال کیا کہ ’’جناب سیّدنا صدیقِ اکبر اور عُمر فاروق رضی اللہ عنہما کو بارگاہِ رسالت میں کیا مقام حاصل تھا؟‘‘ تو آپؒ نے یہ مختصر اور خُوب صُورت جواب دیا کہ ’’كمنزلتها الساعة‘‘ یعنی جو قُربِ خاص اُنہیں آج سُنہری جالیوں میں نصیب ہے، ظاہری حیات میں بھی اُنہیں وہ قُرب حاصل تھا۔ (مسند احمد 16709 :)

روایت نمبر 3۔ حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا کہ ’’عن قریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے کہ جو ہماری محبّت کا دعویٰ کریں گے اور ہمارے گروہ میں ہونا ظاہر کریں گے، وہ لوگ اللہ کے شریر بندوں میں سے ہیں، جو حضرت سیّدنا ابوبکر و عُمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں۔ (کنزالعمال،کتاب الفضائل،حدیث36098:)

روایت نمبر4۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ ’’مُجھے پتا چلا ہے کہ کچھ لوگ مُجھے حضرت ابوبکر و عُمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے رہے ہیں۔ اگر مَیں اس معاملے میں مقدّم ہوں، تو سزا کا حق دار ہوں، تقدیم سے پہلے مُجھے سزا ناپسند ہے (جس نے مُجھے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دی، جس نے ایسا کہا) وہ جُھوٹا ہے۔ اُس کو وہی سزا دی جائے گی، جو جُھوٹے کو دی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے بہتر حضرت ابوبکر اور پھر عُمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ (مقامِ صدیقِ اکبر،ص71- فضائلِ صحابہ لامام احمد ،1/633)

لہٰذا معلوم ہوا کہ اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صحابہ کرامؓ خصوصاً سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان گہری محبّت و الفت تھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دِلوں کو صحابۂ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ کی محبّت سے سرشار فرمائے۔ (آمین)