• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک، رنگ و نُور کا عالم ....

تحریر: فرحی نعیم

مہمان: فضہ مرزا

ملبوسات: فاطمہ مرزا

آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر

کوارڈی نیشن: محمد کامران

عکاسی: ایم۔ کاشف

لےآؤٹ: نوید رشید

دنیا بھر کے مسلمانوں، کُل امتِ مسلمہ کو نوید ہو کہ ’’نیکیوں کے موسمِ بہار‘‘ کی آمد ہوچُکی ہے۔ ایک ایسا دل نشین موسم کہ جب بیک وقت رحمت و مغفرت کی برکھا برستی، محبت و چاہت کے پھول کِھلتے، بادِ صبا خُوب اِٹھلاتی، مُسکراتی ہے، تو چاند، تارے بھی گویا بادلوں کی اوٹ سے جھانک جھانک کے اہلِ زمین پر رشک و فخر کرتے ہیں۔ یہ واحد موسم ہے، جس میں بےحد ٹھنڈی ٹھنڈی، نہایت معطّر، عطربیز ہوائیں جہاں بَھر کے مسلمانوں کو، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصّے میں مقیم ہوں، بھرپور سرور بخشتی، مجسّم شاداں و فرحاں کرتی ہیں۔

یہ کائناتی نظام ہے کہ دنیا کے مختلف حصّوں میں جس طرح رات و دن کے اوقات مختلف ہیں، اِسی طرح درجۂ حرارت بھی یک ساں نہیں۔ کہیں سخت گرمی ہے، تو کہیں سخت سردی، کہیں بارشیں ہیں، تو کہیں بوند بوند کو ترستی زمیں، کہیں پت جھڑ تو کہیں ژالہ باری۔ لیکن ایک موسم یقیناً ایسا ہے، جب ہر جا ہی کلیاں چٹکتی، پھول ہی پھول کِھلتے، نرم و لطیف ہوائیں سرسراتی، چہار سُوبرکھا، ساون سا سماں ہوتا ہے۔ 

ہر طرف قوسِ قزح کے رنگ ہی رنگ بکھرے معلوم ہوتے ہیں اور وہ موسم ہے، ماہِ صیام کا موسم۔ جو اہلِ زمین کے لیے نیکیوں کا موسمِ بہار بن کر، سرتاپا اللہ کی رحمت و محبت سے بھگوئے جاتا، سرشار کیے رکھتا ہے۔ جس میں ہر ایک روزے دار کی جسمانی وروحانی، ذہنی ونفسیاتی کیفیت سرور آگیں ہوتی ہے، تو جس میں نیکیوں کی طرف دوڑنے کی جستجو، برائیوں سے بچنے کی کوششوں کی بھی ایک ریس سی لگی نظر آتی ہے۔ 

بلاشبہ، یہ تیس فرحت بخش ایّام، ہمارے لیل و نہار میں ایسی تبدیلی لاتے ہیں کہ باہر کے ساتھ ساتھ دِلوں کی دنیا بھی بدل کے رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے سونے جاگنے، آنے جانے، کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی کے ساتھ، ہمارے پہننے اوڑھنے کے سب رنگ ڈھنگ بھی بہت حد تک بدل جاتے ہیں اور یقیناً یہ تبدیلی، صرف اور صرف اِسی ماہِ مبارک کی مقدس فضاؤں کے طفیل عمل میں آتی ہے۔

کیا ہی خُوب صُورت بات ہے کہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی کوئی ایک بھی ساعت خیر سے خالی نہیں۔ بس، ہمیں کرنا یہ ہے کہ ہم نے اِس ماہ کے شب و روز میں اپنا تعلق، اپنے مہربان و شفیق رب سے زیادہ سے زیادہ جوڑنا ہے۔ رمضان کریم، درحقیقت اطاعت و فرماں برداری، بندگی و عبادت، تقویٰ و پرہیز گاری، ہدایت و اصلاح کا مہینہ ہے۔

یہ اُس پاک پروردگارکا مہینہ ہے، جس نے ہمیں راہِ راست کے ضمن میں کچھ خاص ہدایات دے رکھی ہیں اور اُن ہی ہدایات میں سے ایک ’’لباس کے آداب‘‘ بھی ہیں کہ ہمارا لباس جتنا ساتر، پاکیزہ و پوتّر ہوگا، ہماری شخصیت ہمارے پالنہار اور دنیا کے سامنے اُتنی ہی جاذبِ نظر اور باوقار ہوجائے گی۔ اللہ فرماتا ہے۔ ’’اے آدم (علیہ السلام ) کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا، جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چُھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے۔ اور تقویٰ کا لباس، اِس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف، آیت نمبر26) 

حقیقتاً ربِ کریم ہمارے طور اطوار، ہر ہر رنگ و انداز و میں پاکیزگی و پارسائی کو غالب دیکھنا چاہتا ہے اور پھر عورت، جس کےمعنی ہی ’’چُھپی ہوئی، پوشیدہ، مستور‘‘ کے ہیں۔ جس طرح قیمتی موتی، سیپ میں چُھپا ہوا ہوتا ہے یا جیسے ہیرے، جواہرات مخملیں ڈبّوں میں سینت سنبھال کےرکھے جاتے ہیں، اِسی طرح عورت بھی اَن مول ہے اور ایک سمجھ دار، حیادار و باوقارعورت کی تو پہچان و شناخت ہی اُس کے پہناوے سے ہوتی ہے۔

صد شُکر کہ آج بھی رمضان المبارک کا ادب و احترام ہمیں اس ماہِ سعید میں مرد و خواتین کے اندازِ ملبوسات کے یک سرتبدیل ہونےکی صُورت باقاعدہ محسوس ہوتا ہے۔ خصوصاً ہمارے مشرقی پہناوے، جو دنیا بھر میں پاکستانی معاشرت کے علم بردار کے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں کہ شلوار قمیص کے ساتھ لباس کا تیسرا اور لازمی حصّہ دوپٹا (جو پچھلے کچھ سالوں سے نہ جانے کس رَو میں تن و مَن سے جدا کر دیا گیا ہے) ہمارا فخر و امتیاز، ہمارا خاصّہ ہے، بیش تر خواتین، اُن ہی سے مرصّع دکھائی دیتی ہیں۔

ہمارے نہایت حسیں ودل نشیں آنچل، خواہ وہ ڈھائی سے تین گز کی سوتی، لان کی چادروں کی شکل میں ہوں، یانرم وملائم شیفون، جارجٹ کی اوڑھنیوں، دوپٹوں کی صُورت، جدید انداز کے اسٹالر کے انداز میں ہوں یا اُجلے، گہرے رنگوں کی چُنریوں کے پیرہن میں، ایک بار پھر سے سَروں، کاندھوں، جسموں کو ڈھانپے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دوسری عورت کے لباس کو مزید جاذبِ نظر بنا کر نہ صرف اُسے حیا کے شفق رنگوں سے مزین کرتے ہیں، پوری فضا، ماحول ہی کو نورانی سا کر ڈالتے ہیں۔

بےشک اوڑھنی، دوپٹا، چادر، اسکارف، جلباب ہماری اصل پہچان، شناخت، ہمارا فخر واعزاز، ہمارا طرۂ امتیاز ہے۔ یہی ہماری تہذیب و ثقافت، دینی و سماجی اقدار و روایات کی پاس داری کا استعارہ ہے کہ نہ تو ہمارا لباس اِس کے بغیر مکمل ہے، اور نہ ہی ہم خُود۔ تو آج ملاحظہ کیجیے، ہماری ایک ’’مکمل بزم‘‘۔ سیاہ، نارنجی، گہرے آسمانی اورسیاہ وسفید رنگوں کے پہناووں کے ساتھ ہم آہنگ دوپٹوں نے پوری محفل کو کیا ماورائی، ملکوتی سا حُسن عطا کر رکھا ہے، یقیناً دیکھنے والی نگاہیں خُود بھی محسوس کر رہی ہوں گی۔