• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورت: سراپا تقدس، بقائے انسانی اور معاشرتی ترقی کی ضامن

دُنیا بَھر میں آٹھ مارچ کو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد خواتین کے حقوق،صنفی مساوات اوران کےساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ابتدا میں یہ دن مزدور پیشہ یا پروفیشنل خواتین کے حقوق کے تحفّظ کے لیے مختص کیا گیا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی گئیں اور اپنے حقوق سے واقعتاً محروم بَھٹّوں پر اینٹیں اُٹھانےوالی، وڈیروں کے کھیتوں میں کام کرنے والی، سڑکوں پر چوڑیاں بیچنے والی اور فیکٹریوں میں محنت مشقّت کرنے والی خواتین کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔ 

اب اِس عالمی یوم پر ایئرکنڈیشنڈ ہالز میں سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں، جہاں پُرتعیّش گاڑیوں سے اُترنے والی مخصوص طبقے کی نمائندہ خواتین اپنی تقاریر میں روایتی جملے دُہرا دُہرا کر خُود کو حقوقِ نسواں کا علم بردار ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بالخصوص ہمارے مُلک میں عالمی یومِ خواتین اس مخصوص بیانیے کو فروغ دینے کا ذریعہ بن چُکا ہے کہ ’’مشرقی عورت گھر میں قید ہے۔ اُس کی تعلیم تک رسائی نہیں۔ 

حجاب اور پردہ ظلم ہے اور مَرد، عورت کو ملازمت کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ خواتین کے عالمی یوم پر بعض مفاد پرست عناصر نہ صرف اپنے مُلک بلکہ اپنی مذہبی تعلیمات کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں، حالاں کہ دینِ اسلام نے عورت کو جو عزّت، مقام اور حقوق عطا کیے، وہ دُنیا کا کوئی دوسرا مذہب یا نظام نہیں دے سکتا۔ قبل از اسلام دُنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کو کم تر اورحقیر تصور کیا جاتا تھا، جب کہ اسلام نے عورت کو محض ایک صنف نہیں، بلکہ انسانیت کی بقا اور معاشرتی ترقّی کی ضامن قرار دیا۔

اسلام نے نہ صرف عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے طور پر عزّت بخشی بلکہ اُس کے حقوق بھی واضح طور پر متعین کر دیئے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خواتین نہ صرف تعلیم حاصل کرسکتی ہیں، بلکہ اپنے گھر، معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔ یہاں اصل سوال یہ ہے کہ ہم اسلامی اصولوں سے کس حد تک واقف ہیں اورخواتین کے حقیقی مسائل، جن میں تعلیم، صحت اور تحفّظ جیسے بنیادی حقوق شامل ہیں، اُن پر توجّہ مرکوز کرتے ہیں یا پھر محض مصنوعی بیانیے کی پیروی میں مغربی نظریات کے پیچھے بھٹکتے رہتے ہیں؟

آمدِ اسلام سے قبل خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم میں سب سے بھیانک رسم بیٹی کی پیدائش پر ناپسندیدگی کا اظہار اور اِسے زندہ دفن کرنے کا وحشیانہ عمل تھا۔ قرآنِ کریم اس سنگین ناانصافی کو یوں بیان کرتا ہےکہ ’’جب اُن میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری دی جاتی ہے، تو اُن کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غم سے بَھر جاتا ہے۔‘‘ (النحل 58:) اسلام نے اس ظالمانہ رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ بیٹی کو رحمت قرار دیتے ہوئے اُس کی پرورش پر جنّت کی بشارت دی۔ 

نبی کریمﷺ نے عورت کی عظمت کو اس قدر بلند کیا کہ بیٹی کی عزّت و تکریم کرنے والے کو جنّت کی خوش خبری دی۔ چناں چہ حضرت ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’جس شخص کی بیٹی ہو اور وہ نہ اُسے زندہ دفن کرے، نہ اُس کی اہانت کرے، اور نہ ہی اپنے بیٹے کو اُس پر ترجیح دے، تو اللہ اسے جنّت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ (سننِ ابوداؤد) اسلام نے عورت کو معاشرتی برابری، عزّت اور محبّت عطا کی اور اُس کے ساتھ کسی بھی قسم کی ناانصافی کو مسترد کیا۔

دینِ اسلام نے عورت کے مقام کو فطرت کے عین مطابق متعیّن کیا، کیوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اسلام نے مَرد و عورت کو مساوی معاشرتی درجہ دیا، لیکن ان کے دائرۂ کار میں فطری فرق رکھا۔ اسلام سے قبل عورت کو کم ترسمجھا جاتا تھا، جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عُمرفاروقؓ سے مروی ہے کہ ’’مکّہ میں عورتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، لیکن جب اسلام آیا اور عورتوں کے حقوق سے متعلق آیات نازل ہوئیں، تو اُن کی قدرومنزلت لوگوں پر واضح ہوئی۔‘‘ 

ایک مرتبہ حضرت عُمر فاروقؓ کی اپنی زوجۂ محترمہ سے کسی معاملے پر بحث ہوئی، تو آپؓ نے حیرت سے کہا کہ ’’کیا ایک عورت، مَرد سے اِس طرح بات کرسکتی ہے؟‘‘ تو آپؓ کی اہلیہ نے جواب دیا کہ ’’نبی کریمﷺ کے سامنے بھی ازواجِ مطہراتؓ اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ اسلام میں عورت کو آزادیٔ رائے کا حق دیا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق عطا کیے ہیں، اُن کا تقاضا ہے کہ وہ اُن کا صحیح استعمال کرے۔ 

عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے اوراس کی نزاکت ولطافت ہی کی وجہ سے یہ دُنیا حسین ودِل کش ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ’’عورت اگر پرندے کی صُورت خلق ہوتی، تو ضرور مور ہوتی۔ اگر چوپائے کی صُورت خلق کی جاتی، تو ضرور ہرن ہوتی۔ اگر کیڑے مکوڑے کی صُورت اِس کی تخلیق ہوتی، توضرورتتلی ہوتی۔ لیکن وہ انسان خلق ہوئی تاکہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی بنے۔ المختصر، سراپا تقدّس بنے۔‘‘ بطور انسان عورت نہایت عظیم ہستی ہے۔وہ گھریلو معاملات کے اعتبارسے بےمثال ذہانت رکھتی ہے۔

بچّوں کی نفسیات سمجھنے اور اُن کی تربیت میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ یہی فطرت کا ضابطہ ہے، مگر افسوس کہ آج عورت کو آزادی کے نام پر ایک نئے فریب میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ مغربی خیالات کے زیرِاثر کچھ قوّتیں اُسے گھر اور خاندان سے بیگانہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ یہ عناصر درحقیقت عورت سے اس کی پاکیزگی اورعفّت چھیننے کی کوشش میں ہیں۔ سو، مسلمان خواتین کو چاہیے کہ وہ ان سازشوں سے بچیں اوراپنا وقار و پاکیزگی برقرار رکھیں۔