نہ جانے مجھے کیا ہو گیا ہے، کوئی فلم پسند ہی نہیں آتی، جس فلم کی تعریف سنتا ہوں اسے تلاش کرکے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر پانچ منٹ میں ہی اُکتا جاتا ہوں، اور کبھی کبھی تو پہلے منظر میں ہی فلم کو مسترد کر دیتا ہوں۔ ایوارڈ یافتہ فلمیں بھی زیادہ متاثر نہیں کر پاتیں، شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل اُن فلموں کو آسکر وغیرہ دیے جا رہے ہیں جن میں کوئی بڑا یا اچھوتا مسئلہ اُجاگر کیا گیا ہو، فلم کی دلچسپی ثانوی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن یہ میری رائے ہے جو یقیناً غلط ہوگی کیونکہ مجھے ایسی ایسی شہرہ آفاق فلمیں بھی پسند نہیں آئیں جن کے نام اگر میں یہاں لکھ دوں تو لوگ مجھے سَنکی قرار دے دیں گے (اور کچھ تو پہلے ہی ایسا سمجھتے ہیں)۔ تاہم گزشتہ دنوں فلم ”مسز‘‘ دیکھی جس نے سارے دھونے دھو دیے، پہلے منظر سے لے کر کلائمکس تک فلم نے باندھ کر رکھا حالانکہ یہ کوئی سسپنس فلم نہیں بلکہ خا لصتاًگھریلو ڈرامہ فلم ہے۔ مسز کی کہانی نیہا (ثانیہ ملہوترا) کے گرد گھومتی ہے، نیہا کو ڈانس سیکھنے کا جنون ہے، اُس کی سہیلیوں کا پورا گروپ ہے جو باقاعدہ اِس کی مشق کرتا ہے، لیکن اسی دوران نیہا کی شادی طے ہو جاتی ہے اور وہ ایک وفاشعار اور تابعدار بیوی بن کر اپنے پتی کے گھر آ جاتی ہے جہاں شوہر کے علاوہ اُس کی ساس اور سسر ہیں۔ یہ برے لوگ نہیں بلکہ روایتی لوگ ہیں، ساس صبح سویرے اٹھ کر اپنے شوہر اور بیٹے کیلئےکھانا تیار کرتی ہے، اُن کے کپڑے حتّیٰ کہ جوتے بھی سیٹ کرکے رکھتی ہے تاکہ انہیں پہننے میں آسانی ہو۔ نیہا پوری نیک نیتی اور دلجمعی کے ساتھ اپنی ساس کی طرح شوہر کی خدمت میں جُت جاتی ہے مگر دھیرے دھیرے اُسے احساس ہوتا کہ وہ محض ایک نوکرانی بن کر رہ گئی ہے جس کا کام فقط شوہر کیلئے کھانا پکانا اور کپڑے تیار کرنا ہے۔ اُس کے ڈانس کا شوق کہیں پیچھے رہ جاتا ہے، اُسے ڈانس سیکھنے کی اجازت نہیں ملتی۔ پھر اِس فلم میں کیا ہوتا ہے، یہ بتا کر میں آپ کا مزا کِرکرا نہیں کرنا چاہتا، وہ آپ خود دیکھیں۔ اِس فلم پر مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں اور اسے بے حد پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے، ہمارے ہاں عورتیں گھروں میں جو کام کرتی ہیں انہیں کسی کھاتے میں ہی نہیں لکھا جاتا، ہمارے جیسے معاشروں میں کام اسے سمجھا جاتا ہے جو مرد دفتروں میں کرتے ہیں، مردوں کی نظر میں عورتیں تو فقط جھک مارتی ہیں۔
یہ فلم دیکھ کر مجھے ہوم اکنامکس کا نصاب یاد آگیا، کچھ عرصہ پہلے کسی نے اُس نصابی کتاب کا صفحہ سوشل میڈیا پر شیئرکیا تھا، پیشانی پر لکھا تھا ”خاتون خانہ کیلئے وقت کے گوشوارے کا مثالی خاکہ“۔اِس مثالی خاکے کی رُو سے خاتون خانہ صبح پانچ بجے نما ز کے وقت اٹھیں گی،ساڑھے پانچ سے سات ناشتہ،اسکول،آفس جانے کی تیاری، سات سے آٹھ کچن کی صفائی،آٹھ سے دس گھر کی صفائی، پڑھائی، دھلائی، دس سے بارہ کھانا پکانا، بارہ سے ایک نمازِ ظہر،ایک سے ڈیڑھ ذاتی صفائی، ڈیڑھ سے اڑھائی دوپہر کا کھانا، برتن، کچن کی صفائی، اڑھائی سے تین نماز عصر، تین سے چار آرام (شکر ہے)، چار سے ساڑھے چار چائے،ساڑھے چار سے پانچ کپڑے استری، پانچ سے ساڑھے سات بچوں کی پڑھائی (اور اگر بچے نالائق ہوں تو اُن کی دھلائی)، ساڑھے سات سے ساڑھے نو ٹی وی (ساس بہو کے ڈرامے)، ساڑھے نو سے دس نمازِ عشا، دس سے گیارہ صبح ناشتہ کی تیاری اور کچن کی صفائی۔
یہ مثالی گوشوارہ دیکھ کر مجھے اپنے اسکول کا زمانہ یاد آ گیا، میٹرک کے امتحانات سے پہلے میں نے بھی ایسا ہی جنگی قسم کا ٹائم ٹیبل بنایا تھا جس میں صبح پانچ سے رات گیارہ بجے تک تقریباً نان اسٹاپ پڑھائی تھی۔شاید ہی کوئی دن ایسا گزر اہوجب میں نے اُس ٹائم ٹیبل پر عمل کیا ہو۔ ظاہر ہے میں نے ”خاتون خانہ“ تو نہیں بننا تھا کہ مثالی گوشوارے پر عمل کرتا۔ ویسے یہ ہوم اکنامکس والا گوشوارہ کافی دلچسپ ہے بشرطیکہ اِس پر عمل نہ کرنا پڑے، مثلاً اِس کی رُو سے باورچی خانے کی دن میں تین مرتبہ صفائی کرنی ہے، کہیں باہر آنا جانا نہیں، کسی سے ملنا نہیں، تھک ہار کر رات گیارہ بجے سونا ہے اور صبح پانچ بجے چوکس ہو کراٹھنا ہے۔ (شکر ہے کسی اہلِ نظر نے رات گیارہ سے صبح پانچ بجے تک کا گوشوارہ نہیں بنا دیا)۔ چونکہ یہ گوشوارہ ہاؤس وائف کیلئے بنایا گیا ہے سو ہم یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ اگر عورت ملازمت یا کاروبار کرتی ہو تو ایسی صورت میں کیا گوشوارہ بنے گا! لیکن عورت چاہے ملازمت کرتی ہو یا کاروبار، گھر آ کر کھانا پکانا اور کچن سنبھالنا بہرحال اسی کی ذمہ داری ہے۔ ویسے اِس سے تو کہیں بہتر انگریز کے زمانے کا نصاب تھا، ملاحظہ ہو”زنانہ اردو کورس، حصہ چہارم چوتھی جماعت کیلئے، آلٹر نیٹ ٹیکسٹ بک، منظور شدہ، سررشتہ ہائے تعلیم(1946)“ کم از کم اِس کتاب میں بچیوں کیلئے نظمیں، مضامین اور تاریخ کے کچھ باب تو ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ عورتوں کیلئے اِس قسم کا نصاب بنانے والوں کا کوئی قصور نہیں،آج سے سو دو سو سال پہلے تک پوری دنیا میں عورتوں کو ذاتی استعمال کی چیز سمجھا جاتا تھا، انگلستان میں شوہر کو قانوناً اختیارحاصل تھا کہ وہ بیوی کومار سکے، عورت کے پیسوں پر بھی اُس کا حق ہوتا تھا اور اگر وہ جہیز میں کوئی جائیداد لاتی تو وہ بھی خاوند کے تصرف میں ہی رہتی۔ ہمارے جیسے معاشروں کو تو اب تک سمجھ نہیں آ ئی کہ عورتیں جب اپنے حقوق کیلئے نعرے لگاتی ہیں تو وہ بے حیائی کا مطالبہ نہیں کر رہی ہوتیں بلکہ صرف یہ بتا رہی ہوتی ہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح انسان ہیں اور اُن کے بھی مردوں کی طرح حقوق ہیں۔ ایک طنز عورتوں پر یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر برابری کا مطالبہ کرتی ہو تو اب رونا کیسا، بس میں لٹک کر سفر کرو، نوکری کرو اور مردوں کی طرح دھکے کھاؤ۔ یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ پدرسری معاشرے میں جب عورت خود کو فیمنسٹ کہتی ہے تو اِس کا محض یہ مطلب ہے کہ مر د نے عورت کو اپنے پیروں تلے دبا کر رکھا ہے، وہ اُس کی گردن سے اپنا پیر ہٹا کر اسے آزاد کرے، بس۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے جو مرد خود کو فیمنسٹ کہتے ہیں اُن کا جملہ یوں شروع ہوتا ہے کہ ”میں عورتوں کو حقوق دینے کے لیے تیار ہوں مگر....“گویا کہ عورتوں کے حقوق کیا ہوں گے یہ ہم مرد طے کریں گے اور وہ بھی ایسے جیسے خیرات دی جاتی ہے۔اور آخر میں ہمارا پسندیدہ جملہ اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ہی عورتوں کو حقوق دے دیے تھے، جی ہاں، اسلام نے تو دے دیے تھے، اب پاکستانی مرد کا انتظار ہے وہ یہ حقوق کب دیتا ہے!