شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ کو ملکی ایکسپورٹ میں نمایاں مقام حاصل ہے اور اس شہر کو ’’ایکسپورٹ سٹی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں بننے والے اسپورٹس، سرجیکل گڈز اور دیگر اشیاء کی دنیا بھر میں بڑی ڈیمانڈ ہے۔ سیالکوٹ کے صنعتی شعبے میں تیار ہونے والی مصنوعات کی ایکسپورٹ تقریباً 2.5ارب ڈالر ہے جو ملکی ایکسپورٹس کے10 فیصد سے زائد ہے۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے موجودہ صدر اکرام الحق سے میری پرانی شناسائی ہے، وہ 2023میں مراکو جانے والے پاکستانی بزنس مینوں کے وفد میں شامل تھے اور اس دورے کے دوران میں نے انہیں سیالکوٹ سے ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے سرگرم پایا۔ ان کی خواہش پر گزشتہ دنوں پاکستان میں مراکو کے سفیر محمد کرمون کے ہمراہ سیالکوٹ چیمبر کا دورہ کیا۔ اس موقع پر سیالکوٹ چیمبر میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں چیمبر کے صدر اکرام الحق، سینئر نائب صدر وسیم شہباز لودھی، نائب صدر عمر خالد اور دیگر عہدیداران، سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بزنس مینوں اور ایکسپورٹرز نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کا آغاز پاکستان اور مراکو کے قومی ترانے سے کیا گیا۔ بعد ازاں سیالکوٹ چیمبر کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری دکھائی گئی جسے دیکھ کر مراکو کے سفیر محمد کرمون اور میں بہت متاثر ہوا۔
سیالکوٹ میں درمیانے درجے کی صنعتوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہے، یہ شہر جہاں کھیلوں کے سامان اور جراحی کے آلات کی ایکسپورٹ کیلئے مشہور ہے، وہاں دوسرے شعبوں کی صنعتیں بھی ایکسپورٹ کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں جن میں چمڑے، ٹیکسٹائل، مارشل آرٹ، باکسنگ، سیفٹی گارمنٹس، کٹلری اور دیگر مصنوعات شامل ہیں۔ اسی طرح موسیقی کیلئے استعمال ہونے والے انسٹرومنٹس بھی سیالکوٹ میں تیار کئے جارہے ہیں۔ اپنی استقبالیہ تقریر میں سیالکوٹ چیمبر کے صدر اکرام الحق نے مراکو کے سفیر کی سیالکوٹ آمد پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے جب مراکو کے کسی سفیر نے سیالکوٹ چیمبر کا دورہ کیا ہو۔ اکرام الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان اور مراکو کے درمیان باہمی تجارت اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے سیالکوٹ چیمبر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس موقع پر مراکو کے سفیر محمد کرمون نے اپنی تقریر میں سیالکوٹ چیمبر کے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ مراکو اور پاکستان کی باہمی تجارت میں اضافہ ہو اور اس سلسلے میں سیالکوٹ چیمبر کے صدر نے جو سفارشات پیش کی ہیں، ان پر عملدرآمد کیلئے وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں مراکو کے اعزازی قونصل جنرل اور FPCCI کی پاک مراکو بزنس کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے ہر سال پاکستانی بزنس مینوں کا وفد مراکو لے کر جاتا ہوں اور پاکستانی باسمتی چاولوں کی ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے ہر سال ’’بریانی فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کرتا ہوں، مجھے امید ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی سیالکوٹ چیمبر کے بزنس مین اور ایکسپورٹرز Delegation کا حصہ ہوں گے۔ میں نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا کہ مراکو کو امریکہ، یورپ، ترکی اور دوسرے ممالک سے ’’فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ کا درجہ حاصل ہے جس سے پاکستانی بزنس مین بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔
سیالکوٹ کی ایکسپورٹ میں فارورڈ گروپ ایک اہم کردار ادا کررہا ہے، یہ گروپ دنیا کے معروف برانڈز Adidas، Reebok، Diadora، Lotto اور فیفا ورلڈ کپ کیلئے ہاتھ اور مشینوں سے بنے فٹ بال تیار کررہا ہے۔ فارورڈ گروپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ فیفا ورلڈ کپ، UEFA چمپئن لیگ اور لندن اولمپکس کے میچز اس گروپ کے بنائے گئے فٹ بال سے کھیلے گئے جبکہ یہ گروپ اپنے بنائے گئے فٹ بال مراکو بھی ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ مراکو کے سفیر محمد کرمون میرے ہمراہ جب فارورڈ گروپ کی فیکٹری پہنچے تو گروپ منیجنگ ڈائریکٹر خواجہ مسعود اختر نے ہمارا استقبال کیا۔ اس موقع پر خواجہ مسعود اختر نے اپنی پریذنٹیشن میں بتایا کہ سیالکوٹ کو اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر دنیا بھر میں ’’فٹ بال مینوفیکچرنگ کیپٹل‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور فارورڈ گروپ فٹ بال کی ایکسپورٹ میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فارورڈ گروپ سالانہ 1.8 ملین فٹ بال تیار کررہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ فیفا ورلڈ کپ ان کی کمپنی کے بنائے گئے فٹ بال سے کھیلا جائے گا۔ خواجہ مسعود اختر کا کہنا تھا کہ پاکستانی فٹ بال مراکو میں بہت مقبول ہیں اور مراکو فٹ بال کی بڑی مارکیٹ تصور کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انکی کمپنی فٹ بال کے علاوہ سرجیکل گڈز اور اسپورٹس بیگز بھی تیار کررہی ہے۔ اس موقع پر مراکو کے سفیر محمد کرمون نے بتایا کہ 2030 میں فیفا ورلڈ کپ مراکو، اسپین اور پرتگال میں منعقد ہورہا ہے جس کے باعث مراکو سمیت افریقی خطے میں فٹ بال کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو رہا ہے اور فارورڈ گروپ مراکو سے جوائنٹ وینچر کر کے اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر خواجہ مسعود اختر نے مراکو کے سفیر محمد کرمون اور مجھے فیفا ورلڈ کپ کیےآفیشل فٹ بال کا تحفہ بھی پیش کیا۔
حالیہ دنوں میں سفارتکاری میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک وقت تھا جب سفارتکار، سفارتخانے میں بیٹھ کر اور عشائیوں میں شرکت کرکے اپنی ذمہ داری انجام دیتے تھے لیکن موجودہ دور میں روایتی سفارتکاری، معاشی سفارتکاری میں تبدیل ہو چکی ہے اور اب سفارتکار کی ترجیحات میں شامل ہے کہ وہ جس ملک میں تعینات ہے، اس ملک کے بزنس مینوں، فیڈریشن آف کامرس اور چیمبرز کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں اپنے ملک سے تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کی دعوت دیں۔ پاکستان میں مراکو کے سفیر محمد کرمون کا حالیہ دورہ سیالکوٹ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امید ہے کہ بیرون ملک پاکستان کے سفارتکار بھی روایتی سفارتکاری کو خیر باد کہہ کر معاشی سفارتکاری کو اپنائیں گے تاکہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری، ایکسپورٹ میں اضافہ اور وزیراعظم کا 50 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔