• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

شہر کے مرکز میں بادشاہ کا دفتر تھا باہر سے بھی عام سا لگتا تھا اور جب میں سیڑھیاں چڑھ کر بادشاہ سلامت سے ملاقات کیلئے گیا، میرے لئے دروازہ کھولا گیا توسامنے بادشاہ اپنے دفتر کے درمیان میں میرے استقبال کیلئے کھڑے تھے آفس میں صرف ایک میز تھا اور دو کرسیاں ایک کرسی پر بادشاہ سلامت تشریف فرما ہوگئے اور میں ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا مگر جب انہوں نے اپنے گھر پر سفیروں کو بلایا تو وہ بادشاہ ہی کا گھرلگتا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کو کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ کرنا ان کی تہذیب میں داخل ہے ویسے بھی وہاں جو نظام نافذ ہے وہ عوام کی ہر ضرورت پوری کرتاہے۔ناروے سمیت دوسرے سیکنڈنیو ین ممالک میں بھی عوام اور خواص میں زیادہ فرق روا نہیں رکھا جاتا اور اگر فرق ہے تو اسکی نمائش نہیں کی جاتی۔

ناروے کے حوالے سے میں نے جو کچھ لکھا اور اپنی حقیر خدمات کا کم سے کم ذکر کیا اس پر ایک دوست ظہیر الدین احمد نے تبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کی ہیں جن کا ذکر میں نے کیا تھا، فیس بک پر انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے ۔

ماشاءاللہ آپ کا دور آج بھی لوگوں کو یاد ہے کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہو وہ دن ہو یا رات آپ کے پاس آ سکتا تھا پاکستانی کمیونٹی آپ کی وجہ سے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرنے لگی تھی دکانوں میں ہندوستان کی چیزوں کی بجائے پاکستانی چیزیں بکنے لگی تھیں یہاں تک کہ انڈین دکانوں پر بھی پاکستانی چیزیں نظر آتی تھیں، آپ کے پاکستانیوں کے ساتھ روابط انتہائی مضبوط تھے کوئی بھی اپنے مسئلے کیلئے آنے والا یہ ہی سمجھتا تھا جیسے آپ انکے بچپن کے دوست ہیں ایسا ایمبیسڈر ناروے میں نہ کبھی آیا نہ کبھی آئے گا۔ آپ نے پاکستان اور پاکستانی نارویجین کا نام روشن کیا آپکی وجہ سے پاکستان کے وزیر اعظم جب ناروے تشریف لائے تو وہاں کے ریڈیو پر ہر گھنٹے بعد یہ خبر سن کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا( عالم اسلام کے سب سے طاقتور وزیر اعظم پاکستان آج اوسلو کی زمین پر ہیں ) آپ کے زمانے میں ناروے اور پاکستان کے درمیان ٹورازم کو بہت فروغ ملا اور اتفاق سے جب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ناروے گئے تھے میں بھی ٹورسٹ ویزہ پر اوسلو میں تھا ،میں جب کئی سال بعد دوبارہ ناروے گیا تو بھی آپ کو لوگوں کے دلوں میں پایا آپ کا ایک جملہ جو ہر پاکستانی کی زبان پر تھا میرے قائد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں اور ہم نے ان کا ساتھ دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ سلامت رکھے، میں آپ کا کالم باقاعدہ پڑھتا ہوں آپ کی تحریریں دل میں اترتی محسوس ہوتی ہیں آج آپ کی آپ بیتی پڑھ کر مجھے ناروے یاد آ گیا اللہ تعالیٰ ہر شخص کے دل میں پاکستان سے محبت کا وہ جذبہ جو آپ کے دل میں ہے ڈالے آمین ثم آمین۔

میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف نے امریکہ جاتے ہوئے اوسلو میں بھی قیام کیا میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں نے ان سے پی آئی اے کی فلائٹ ڈائرکٹ اوسلو کی منظوری لے لی تھی اور اب انہوں نے اس کا اعلان پاکستانیوں کے ایک بڑے اجتماع میں کرنا تھا جس کا اہتمام سفارخانہ اوسلو نے کیا تھا میں جب ان کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ گیا تو واپس ان کے ہوٹل میں ڈراپ کرنے سے پہلے میں نے ان کا وعدہ یاد دلایا ۔انہوں نے کہا فکر نہ کریں مجھے یاد ہے اس کے بعد اجتماع میں انہیں لے جاتے ہوئے میں نے پھر عرض کی میاں صاحب آپ نے ڈائرکٹ فلائٹ کا اعلان کرنا ہے کہنے لگے آپ کیوں فکرکر رہے ہیں میں نے مسکراتے ہوئے عرض کی ’’بس ایسے ہی‘‘وزیر اعظم پاکستان جب ہال میں داخل ہوئے تو پورا ہال تالیوں سے گونجتا رہا اور یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ میاں صاحب جب اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے تو میں نے ایک دفعہ پھر ان کا وعدہ بذریعہ چٹ یاد دلایا جس پر انکے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔اسی طرح میں جب استقبالیہ تقریر کیلئے اٹھ کر مائیک کی طرف گیا تو ایک بار پھر تالیوں سے ہال گونج اٹھا اور جب میاں صاحب نے اوسلوکیلئے ڈائریکٹ فلائٹ کا اعلان کیا تو حاضرین کا جوش اور ان کی خوشی دیدنی تھی اگلے روز انہیں امریکہ کیلئے روانہ ہونا تھا ،میں ان کے ساتھ ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہوا تو راستے میں میاں شہباز شریف نے نواز شریف سے کہا کہ سفیر نے بھی اتنا پرزور استقبال کیا ورنہ جس ملک میں بھی جانا ہوتا ہے وہاں کے پاکستانی اپنے سفیر کے خلاف نعرہ بازی شروع کر دیتے ہیں اور اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں چنانچہ ان کی کارکردگی کی بنا پر ان کی مقبولیت دیکھتے ہوئے میرے خیال میں اب انہیں کسی بڑے اسٹیشن پر تعینات کیا جانا چاہئے اور ایسے ہی ہوا جس کی تفصیل میں کسی اور موقع پر بیان کروں گا۔(جاری ہے )

تازہ ترین