• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کی سیکریٹری جنرل بننا چاہتی ہوں

یونیسیف کی یوتھ ایڈووکیٹ برائے کلائمیٹ ایکشن اینڈ گرلز امپاورمنٹ، زنیرہ قیوم بلوچ کہتی ہیں
یونیسیف کی یوتھ ایڈووکیٹ برائے کلائمیٹ ایکشن اینڈ گرلز امپاورمنٹ، زنیرہ قیوم بلوچ کہتی ہیں

انٹرویو :ابراہیم مشتاق کمبوہ، حب

تعلیمِ نسواں کی اہمیت و افادیت اب اُن قدامت پسند معاشروں میں بھی اجاگر ہونے لگی ہے کہ جہاں کسی دَور میں والدین، لڑکی کی پیدائش ہی سے طرح طرح کے تفکّرات میں گُھلنا شروع ہوجاتے تھے۔ اُنہیں بیٹی کی شادی کے اخراجات کا بندوبست کرنا ہی اپنا اوّلین فریضہ لگتا تھا، مگر اب اُن پر بھی یہ حقیقت آشکار ہو رہی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی پچاس فی صد آبادی کو معاشرتی سرگرمیوں سے الگ رکھ کر ترقّی کی راہ پر قدم نہیں رکھ سکتا، لہٰذا آج خواتین کی روزمرّہ سرگرمیوں میں شمولیت ناگزیر ہے۔ 

بلوچستان کی بات کریں، تو یہاں دو دہائی قبل تک خواتین تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے تھیں، مگر اب یہاں بھی واضح تبدیلی نظر آ رہی ہے، جس کا اندازہ خواتین کی تعلیمی اداروں سمیت مختلف شعبوں میں بڑھتی تعداد سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک طرف بلوچستان کی جامعات اور میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے داخلے میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تو وہیں سِول سروس، سیاست، اسپورٹس، تعلیم، طب اور پولیس سمیت مختلف شعبوں میں پشتون اور بلوچ گھرانوں سے تعلق رکھنے والی نوجوان خواتین اور بچّیاں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔

وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نہ صرف مَردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا رہی ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے ضلع، حب سے تعلق رکھنے والی14سالہ زنیرہ قیوم بلوچ کو یونیسیف کی ’’یوتھ ایڈووکیٹ برائے کلائمیٹ ایکشن اینڈ گرلز امپاورمنٹ‘‘ مقرّر کیا گیا ہے۔ زنیرہ قیوم کے انتخاب کا اعلان ’’بریتھ پاکستان کلائمیٹ کانفرنس‘‘ میں ماحولیات سے متعلق وکالت اور بچّوں کے حقوق کے لیے اُن کی خدمات کے اعتراف میں کیا گیا۔

زنیرہ قیوم نے سی او پی 29 سمیت قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر پاکستان کے نوجوانوں کی نمائندگی کی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں کے بلوچستان کے علاقے، حب میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پراثرات کے حوالے سے اُن کی تحقیق 2023ء میں یونیسیف کے پالیسی ریسرچ چیلنج میں شامل ہوئی اور اُس نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 

نیز، زنیرہ قیوم نے یونیسیف کی ’’یوتھ ایڈوکیسی گائیڈ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے پالیسی مباحثوں، تحقیق اور ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مُہم کی نیٹ ورکنگ میں مشغول نوجوانوں کوتربیت بھی دی ہے۔ گزشتہ دِنوں ہماری زنیرہ قیوم سے تفصلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنے تعلیمی پس منظر سے متعلق کچھ بتائیں اورآپ اِس وقت کون سی جماعت میں زیرِ تعلیم ہیں ؟

ج: مَیں گوبل اسلامک پبلک اسکول میں،جماعت نہم میں زیرِتعلیم ہوں۔ مَیں نےایل ایم ایس اسکول آف انڈیا سے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہمارے اسکول میں درس و تدریس کا ماحول بہت اچھا ہے۔ گزشتہ برس آٹھویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں، مَیں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اب بھی میری پوری کوشش ہوگی کہ پوری دل جمعی سے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھوں تاکہ تعلیم کے میدان میں اپنے والدین اورصُوبے کا نام دُنیا بَھرمیں روشن کر سکوں۔

س: آپ کے پسندیدہ مضامین کون کون سے ہیں؟

ج: تعلیمی نصاب ایک سانچے کی مانند ہوتا ہے، جس میں نئی نسلوں کو ڈھال کر عملی اور قومی زندگی میں خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ویسے تو مَیں تمام مضامین میں دِل چسپی لیتی ہوں، لیکن انگلش اور سائنس میرے پسندیدہ مضامین ہیں۔

س: آپ معاشرے کی مفید شہری بننے کے لیے تعلیم حاصل کررہی ہیں یا پھرحصولِ ملازمت کے لیے؟

ج: تعلیم کا اصل مقصد صرف ڈگری لینا، پیسا کمانا یا پھر نوکری کرنا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ سب تو بغیر ڈگری کے بھی مل سکتا ہے۔ تعلیم تو اپنی صلاحیتوں میں اضافے، بڑے خواب دیکھنے اور ناکامیوں سے خوف زدہ نہ ہونے کا نام ہے۔ 

مَیں اوائل عُمری ہی سے کوئی منفرد اور بڑا کام کرنے کی خواہش مند ہوں اور اب میرا مقصد خواتین سے متعلق ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی دقیانوسی سوچ ختم کرنا ہے۔ اِس ضمن میں یونیسیف کے پراجیکٹ، ’’پالیسی ریسرچ چیلنج‘‘ میں شرکت اور کام یابی سے مُجھے حوصلہ ملا۔ 

بعد ازاں، مَیں نے نیپال میں منعقدہ یونیسیف ساؤتھ ایشیا کے ٹریننگ پروگرام میں بھی شرکت کی اور اِس تربیتی پروگرام سے حاصل ہونے والاعلم، محض خود تک محدود رکھنے کی بہ جائے مقامی خواتین اور بچیوں تک بھی منتقل کیا۔ اس کے بعد مُجھے اقوامِ متّحدہ کی یوتھ ایڈووکیٹ کے اعزاز سے نوازا گیا، جو نہ صرف میرے لیے بلکہ میرے والدین اور اساتذہ کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکاسی :منیر سومرو)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکاسی :منیر سومرو)

س: قبائلی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باعث آپ کو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے میں کوئی مشکلات تو پیش نہیں آئیں؟

ج: بالکل بھی نہیں۔ مَیں پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اور میرے والدین اور خاندان کے دیگر افراد حصولِ تعلیم کے سلسلے میں نہ صرف میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ مُجھے ہر ممکن تعاون بھی فراہم کرتے ہیں۔ گرچہ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں اب بھی خاصی رکاوٹیں اورمشکلات حائل ہیں، لیکن اللہ کا شُکر ہے کہ میرے خاندان کے افراد میری تعلیمی و سماجی سرگرمیوں پر بہت خوش ہیں اور میری بھی یہی خواہش ہے کہ تعلیمِ نسواں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دُوں۔

اِس ضمن میں والدہ محترمہ میری بہت حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور شاید یہ اُن کی محنت اور دُعاؤں ہی کا صلہ ہے کہ آج مُجھے عالمی سطح پر کام یابیاں مل رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، میرے تعلیمی کیریئر میں میرے اساتذۂ کرام کا اہم کردار ہے۔ بالخصوص سر عمران عُمرمگسی اور سررازق نے مُجھے بڑی شفقت و محنت سے پڑھایا۔

س: آج بلوچستان میں مختلف شعبوں میں خواتین سرگرمِ عمل ہیں، تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اب بلوچستان کا قبائلی معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے اور یہاں لڑکیوں کے گھر سے باہر نکلنے پر عائد پابندیاں بتدریج ختم ہو رہی ہیں؟

ج: اِس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں مختلف شعبہ جات میں خواتین آگےآرہی ہیں اور یہ خاصی خوش آئند بات ہے، کیوں کہ معاشرے کی تعمیر و ترقّی میں خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 

اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا بلوچستان میں قبائلی معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے، تو مَیں سمجھتی ہوں کہ اِسے تبدیل ہونا ہی چاہیے۔ ماضی میں لڑکیوں کو گھر سے باہر نکلنے میں جتنی مشکلات کا سامنا تھا، وہ اب آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہیں اور مَیں اس ضمن میں ایک جیتی جاگتی مثال ہوں۔

س: بلوچستان کی خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق کیا تجاویز دیں گی؟

ج: بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس صوبے کی ترقّی و خوش حالی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں صنفی عدم مساوات ختم کر کے خواتین کو بااختیار بنایا جائے۔

س: آپ نے پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق تحقیق کی ہے، تو یہ بتائیں کہ ہمارے مُلک پر موسمیاتی تبدیلیاں کیوں اور کیسے اثر انداز ہورہی ہے ؟

ج: درحقیقت، موسمیاتی تبدیلی دورِحاضر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو اِس وقت پوری دُنیا ہی کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ ہمارے مُلک میں موسمیاتی تبدیلیاں صرف قدرتی آفات کا باعث ہی نہیں بن رہیں، بلکہ اِن کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ اگر موسم کی بات کی جائے، تو پہلے بلوچستان میں ماہِ فروری میں سردی ہوتی تھی، لیکن اِس وقت یہاں گرمی نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔

علاوہ ازیں، موسمیاتی تبدیلیوں سےبچّوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیں، خصوصاً نومولود بچّے سانس کےامراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 2010ء، 2022ء اور2023ء میں مُلک کے مختلف حصّوں میں آنے والے خطرناک سیلابوں کی تباہ کاریاں ہمارے سامنے ہیں۔ 

ان سیلابوں کے نتیجے میں بلوچستان سمیت مُلک بَھرمیں اَن گنت اسکولز تباہ ہوگئے اور اِسی وجہ سےبچّوں، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اسکول سے باہر بچّوں کے حوالے سے یونیسکو کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 25 لاکھ سے زائد بچّے صرف اس وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں کہ اسکولز تباہ ہوچُکے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمارے تعلیمی نظام پر کس طرح اثرانداز ہو رہی ہیں۔

یونیسیف کے نمائندگان کے ساتھ
یونیسیف کے نمائندگان کے ساتھ

س: پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے؟

ج: موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے ضمن میں پاکستان میں کافی تنظیمیں اور افراد متحرک ہوچُکے ہیں اور متعلقہ سرکاری ادارے بھی اس حوالے سےخاصے سرگرم ہیں۔ 

تاہم، ان کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر جلد از جلد قابو پایاجاسکے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ شجرکاری بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے بھی مُلک بَھر میں کاوشیں جاری ہیں۔

س: موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہ کیا ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

ج: پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ ہماری اپنی غفلت ہے کہ ماضی میں ہم نے شجرکاری جیسے ماحول دوست اقدامات نہیں کیے۔ نتیجتاً، آبادی کے اضافے کے ساتھ آلودگی اور گندگی بھی بڑھتی گئی۔ گندگی اور آلودگی پھیلنے کی وجوہ میں پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک سے بنی دیگراشیاء کاکثرت سے استعمال سرِفہرست ہے، جب کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف سُتھرا رکھ کر آلودگی کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ 

نیز، ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہئیں۔ اِن اقدامات سےہمیں نہ صرف تازہ آب وہوا میسّر آئےگی بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔

س: آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتی ہیں؟

ج: جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا کہ مَیں ہمیشہ کچھ بڑا سوچتی ہوں اور بڑے خواب دیکھنے کی عادی ہوں، تو مَیں پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دینا چاہتی ہوں۔ 

پہلے مَیں ڈپٹی کمشنر بننا چاہتی تھی، مگر پھر مَیں نے اپنی سوچ کومزید وسعت دی اوراِس سے بڑا منصب حاصل کرنے کی ٹھانی۔ اب مَیں مستقبل میں اقوامِ متّحدہ کی سیکریٹری جنرل بننا چاہتی ہوں۔

س: اقوامِ متّحدہ کی جانب سے ملنے والے اعزازت سے متعلق بھی کچھ بتائیں۔

ج: مَیں کافی عرصے سے اقوامِ متّحدہ کے ذیلی ادارے، یونیسیف سے منسلک ہوں اور اب مُجھے باقاعدہ طور پر یو این او کی یوتھ ایڈووکیٹ مقرر کیا گیا ہے، جو میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ 

مَیں سمجھتی ہوں کہ اِس مقام تک پہنچنے میں میری محنت اور لگن کےعلاوہ میرے اساتذہ اور والدین کی حوصلہ افزائی اوردُعاؤں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ میری کوشش ہے کہ مُجھے جو ذمّے داری سونپی گئی ہے، مَیں اُسے احسن انداز میں پورا کروں۔

س: مُلک بالخصوص بلوچستان کے نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: پاکستان 30 برس سے کم عُمر 60 فی صد آبادی کے ساتھ نوجوان آبادی کا حامل ایک بڑا مُلک ہے، جو تیزی سےعالمی ڈیجیٹل منظرنامے سے جُڑ رہا ہے۔ تعلیم، کاروبار اور سماجی سرگرمیوں کےلیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نوجوان مثبت تبدیلی کےمحرّک بن سکتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی ایسی پالیسیز وضع کی جانی چاہئیں کہ جن کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نوجوان صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں اور اُنہیں روزگار کے مواقع بھی ملیں۔ 

نوجوانوں کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجّہ تعلیم پر مرکوز رکھیں اور اپنا مستقبل روشن بنانے کے لیے مسلسل محنت جاری رکھیں۔ میرا ایمان ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، جلد یا بدیر اُس کا پھل ضرور ملتا ہے۔