اگر کسی کو روزانہ صبح اٹھ کر یہ سوچنا پڑے کہ آج اُس نے دو وقت کی روٹی کیسے کمانی ہے تو یہ زندگی کیسی ہو گی؟ ہم جیسے پڑھے لکھوں نے اِس کیلئے انگریزی کی ایک ترکیب وضع کر رکھی ہے below the poverty line یعنی خطِ غربت سے نیچے زندہ رہنے والے لوگ۔ یہاں زندہ کا لفظ تو میں نے یونہی خانہ پُری کیلئے استعمال کیا ہے ورنہ یہ لوگ زندہ نہیں ہوتے فقط ہمیں لگتا ہے کہ یہ زندہ ہیں۔ اِس خط کے آس پاس ایک اور کلاس بھی ہے جو اِن کے مقابلے میں ایک آدھ ڈالر اوپر ہے مگر ہمارے کاغذوں میں بہرحال وہ شدید غریب نہیں۔ لیکن اِس کلاس کو بھی وہی چیلنج درپیش ہے کہ آج روٹی کیسے کمائی جائے۔ بہت عرصے کے بعد لاہور کی معروف سڑک ہال روڈ جانیکا اتفاق ہوا، تجاوزات کیخلاف آپریشن کے بعد یہ شاہراہ بہت کشادہ لگی، دکانوں کے سامنے فُٹ پاتھ پر جو اسٹال لگے ہوتے تھے اُن کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ بیس بائیس سال کا ایک لڑکا ہاتھ میں موبائل فون کے کور، ہینڈ فری اور دیگر لوازمات لیے کھڑا تھا، اُسکی کوشش تھی کہ یہ دو چار چیزیںبیچ دے، اُس نے بتایا کہ وہ روزانہ یہی کام کرتا ہے، کبھی ہزار پانچ سو کی دیہاڑی لگ جاتی ہے اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ اگر آپ موٹروے کے کسی سروس ایریا پر سستانے کیلئے رُک جائیں تو وہاں بھی یہی انیس بیس برس کے لڑکے آوازیں دیکر بلائیں گے کہ آپ اُنکے ڈھابے یا ریستوران پر کھانے کیلئے بیٹھیں تاکہ اُنکو چار پیسے مِل جائیں، شاید اُنکی نام نہاد تنخواہ اِس ‘مارکیٹنگ‘ سے مشروط ہے۔ ویسے تو ہر وہ شخص غریب ہے جس کے جائز خرچے اُسکی آمدن سے پورے نہیں ہوتے مگر مجھے خاص طور پر اُس طبقے کو دیکھ کر ہول اُٹھتا ہے جسکی آمدن کا کوئی لگا بندھا ذریعہ نہیں اور اُس نے روزانہ کی بنیاد پر پُل صراط سے گزر کر اپنے لیے روٹی کمانی ہے۔ نہ جانے قیامت کے روز ایسے لوگوں سے کیا سوالات کیے جائینگے!
ہم سوٹڈ بوٹڈ لوگ غربت کے اِس جال سے نکلنے کے طریقے تو بتاتے ہیں مگر وہ طریقے کم اور طعنے زیادہ لگتے ہیں۔ ہر لکھاری کے ہاتھ میں چابک ہے اور وہ یہ چابک اِس غریب عوام پر برسا رہا ہے جیسے سارا قصور اِن لوگوں کا ہے کہ آخر یہ دنیا میں آئے کیوں۔ ایسے لکھاری اپنی انا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں، جب وہ غریبوں کو سیلف ہیلپ پر مبنی مشورہ دے رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت وہ اپنی کامیابی کو بطور ماڈل پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو آخر ہم نے بھی تو تمام مشکلات کو شکست دے کر عزم و ہمت کی عظیم داستان رقم کی ہے، تم کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ لکھاری صبح شام عوام کو لتاڑتے ہیں کہ وہ محنت نہیں کرتے، کوئی ہُنر نہیں سیکھتے، کام چور ہیں، بچت نہیں کرتے، اللے تللے کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اِن تمام باتوں میں کچھ نہ کچھ صداقت ہو، مگر ہم سب نے اپنی اپنی سن گلاسز لگا رکھی ہیں جن کے آر پار ہمیں وہی نظر آتا ہے جو یہ کالی عینکیں ہمیں دکھاتی ہیں۔ ہم یہ اندازہ ہی نہیں لگا سکتے کہ روزانہ اٹھ کر دو وقت کے کھانے کی فکر کرنا کیسا ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ اُس کیفیت اور اُس اذیت کا گمان کرنے سے ہی قاصر ہے جس سے یہ افتادگانِ خاک گزرتے ہیں۔ خیر، یہ بحث کہیں اور نکل جائے گی، ہم موضوع پر واپس آتے ہیں۔ عالمی اداروں نے ایسی کئی تحقیقات کر رکھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے امیر ممالک چاہیں تو غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے، بالکل اسی طرح اگر کسی ملک کے متمول لوگ فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے اپنی دولت خیرات کرنی ہے تو وہ بچے جو خوراک کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں، اُن کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی، لیکن نہ آج تک ایسا ہوا ہے اور نہ آئندہ اِس کا کوئی اِمکان ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے، جبکہ انسانوں میں رحم دلی کا جذبہ بھی ہوتا ہے اور وہ خدا ترسی بھی کرتے ہیں؟ دراصل ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایسے غریب آدمی کی مدد کرنا جس کو ہم نہیں جانتے، ہمارا بنیادی فرض نہیں۔ اپنے عزیز رشتہ داروں، دوستوں، قرُب و جوار میں رہنے والوں یا ضرورت مند ملازمین کی مدد کرنا تو شاید ہمارا اخلاقی اور کسی حد تک مذہبی فریضہ ہو سکتا ہے مگر اجنبیوں کی مدد کرنے کی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہو سکتی،سو اگر ہم اپنی پوری دولت بھی دان کر دیں تو غربت کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ویسے بھی اپنی تمام دولت عطیہ کر دینا بہت اعلیٰ اخلاقی سوچ ہے، یہ بنیادی اخلاقیات اور سماجی فرض سے کہیں اوپر کی بات ہے، بہت کم لوگ ایسی سپریم اخلاقی اقدار کے مالک ہوتے ہیں، یہ پیغمبرانہ وصف کسی کسی میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر ہو گیاہے، ایک تو گزشتہ چار پانچ برس کے افراطِ زر اور کساد بازاری نے غریب تو کیا کھاتے پیتے آدمی کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اوپر سے آبادی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی، اِن دو باتوں نے مل کر غربت میں خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے،آج سے بیس پچیس سال پہلے ہماری سڑکوں پر یہ حال نہیں ہوتا تھا جو اب ہے۔ اِس مضمون کا پیٹ بھرنے کیلئے مجھے چاہیے کہ میں یہاں دو چار کتابی اور انقلابی قسم کے حل پیش کروں اور لکھوں کہ حکومت کو چاہیے کہ ہر گلی میں چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنا دیں، یہ کمیٹیاں آپس میں کمیٹیاں ڈالیں اور کمیٹی نکلنے پر اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ وہ اُس سے پنکچر لگانے کا کاربار سیکھیں اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرکے وہ سہراب سائیکل کمپنی کے مالک بن جائیں، اِس کام کیلئے اہل محلہ کے بڑے بوڑھوں کی خدمات حاصل کی جائیں جنہوں نے ماضی میں اکاؤنٹس کی تعلیم حاصل کر رکھی ہو، وہ بخوشی اور فی سبیل اللہ یہ سارا کام کرنےکیلئے تیار ہو جائینگے۔ معافی چاہتا ہوں کہ سنجیدہ بات کو غیر سنجیدگی سے پیش کیا، لیکن سچ یہی ہے کہ غربت کے اِس گھناؤنے مسئلے کا کوئی آسان حل موجود نہیں۔ غربت کا یہ جال اِس قدر خوفناک ہے کہ بعض اوقات لگتا ہے کہ اِس سے فرار ممکن ہی نہیں۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ خطِ غربت سے نیچے پِسنے والا کوئی شخص اِس جال سے خود بخود نکل سکتا ہے تو اِس قسم کا دعویٰ کرنے والے کو چاہیے کہ ایک دن ہال روڈ پر کھڑے ہو کر موبائل فون کا پروٹیکٹربیچنے کی کوشش کرے مگر یہ ذہن میں رکھے کہ اگر دن میں دس پروٹیکٹر بیچے گا تو دوپہر کا کھانا نصیب ہوگا۔ اِسکے بعد بات ہوگی۔ رمضان مبارک۔