پاکستان میں عدالتی نظام کو تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔ مقدمات کے فیصلے اتنی تیزی سے نہیں ہوتے جتنی تیزی سے نئے کیسز درج ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے عدالتوں پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک، زیر التوا مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں عدالتی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جو عدالتی نظام پر دبائو اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ میڈیا میں سامنے آنیوالے اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60000سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہائیکورٹس میں تقریباً 4لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں۔ ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے۔ ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی مجموعی تعداد 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔زیر التوا مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث بھی بن رہی ہے، جو عدالتی نظام کی مؤثر کارکردگی کیلئے ایک چیلنج ہے۔ مقدمات کے اندراج و فیصلوں میں توازن کیلئے عدالتوں اور ججوں کی تعداد میں اضافہ بھی ایک حل گردانا جاتاہے۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے لوئر کورٹس، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی عدالتی اصلاحات پر بات چیت کی اور ان سے تجاویز طلب کیں۔ وزیر اعظم نے عدالتی اصلاحات کی بھرپور حمایت کا یقین دلایا، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتی نظام میں تبدیلی کیلئے حکومت اور عدلیہ دونوں سنجیدہ ہیں۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ تحریک انصاف کے وفد نے بھی تسلیم کیا کہ عدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ علی ظفر نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی طرف سے دی گئی تجاویز پر غور کیلئے وقت مانگا، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز اس عمل میں متحرک ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی طرف سے عدالتی نظام کی اصلاح اور اس میں اصلاحات کیلئے وکلا تنظیموں کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی ہے۔ عدالتی نظام میں بہتری ایک عرصہ سے ضرورت رہی ہے۔ زیر التوا مقدمات کی بھرمار، فیصلوں میں تاخیراور انصاف کے حصول میں مشکلات وہ چیلنجز ہیں جن کا سامنا عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ انہی مسائل کے پیش نظر، چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی عدالتی اصلاحات کیلئے سرگرم عمل ہیں۔حالیہ پیش رفت میں، پاکستان تحریک انصاف کے 5رکنی وفد نے چیف جسٹس سے اسلام آباد میں انکی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، علی ظفر، سلمان اکرم راجا، لطیف کھوسہ اور بابر اعوان شریک تھے۔ ملاقات میں عدالتی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کے دوران چیف جسٹس نے 10 نکاتی ایجنڈا شیئر کیا۔ بیرسٹر گوہر نے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس نے عدالتی اصلاحات کیلئے تجاویز مانگی ہیں اور تحریک انصاف اپنی سفارشات جلد چیف جسٹس کو پیش کرے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر بھی گفتگو ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے مسائل کے حل کیلئے اپنی کوششوں کا اعادہ کیا۔ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کی طرف سے عدلیہ پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس کی جانب سے تحفظات کا اظہار بلکہ الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ کچھ ججوں کے نام لیکر تضحیک کی گئی۔ عدلیہ تک اپنے تحفظات اعتراضات اور شکایات پہنچانے کیلئے خطوط بھی لکھے گئے۔ فیصلہ حق میں آئے یا خلاف آئے، اس کو تسلیم کیا جانا ہی آئینی تقاضا ہے۔ عدلیہ کا احترام اور اس پر اعتماد بھی لازمی امر ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کا موضوع اکثر زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن اس پر معروضی انداز میں تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر بحث کبھی نہیں کی جاتی، بس مخصوص قسم کے دلائل پیش کر کے بات سمیٹ دی جاتی ہے۔ اسی نوعیت کی ایک بحث کا اہتمام اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے بھی کیا گیا۔ اس سلسلے میں خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے نئے صوبوں کی ضرورت کے موضوع پر ایک گول میز نشست کا انعقاد کیا گیا۔ اس گول میز نشست میں سیاستدانوں، عوامی پالیسی کے ماہرین، اسکالرز اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے شرکت کی۔ گول میز نشست سے خطاب کرنے والوں میں سابق گورنر خیبر پختونخوا شکیل درانی اور سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی، سابق وفاقی سیکرٹری اشتیاق احمد خان، سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز شامل تھے۔ شرکاء نے ملک میں موجودہ انتظامی اور گورننس کے مسائل کے حل کیلئے ایک قدرتی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان کا خیال تھا کہ نئے صوبوں کا قیام عوامی بھلائی اور قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے۔ اس موقع پر شرکاء نے کہا کہ پنجاب کا صوبہ 196ممالک سے بڑا ہے جس سے موجوہ خلفشار کو حل کرنے کیلئے سرحدوں کی دوبارہ ترتیب اور وسائل کی تقسیم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات اور تقاضوں کا حل نکالا جا سکے۔ نشست کے دوران موجودہ انتظامی یونٹس کو نئے صوبوں میں تبدیل کرنے یا متعدد اضلاع کو ملا کر نئے صوبوں میں ضم کرنے کے ممکنہ حل پیش کئے گئے۔ بادی النظر میں ایسے اقدامات محض سیاسی مقاصد کیلئے ہوتے ہیں۔ جو صوبہ بنانے کیلئے آواز اٹھاتے ہیں، وہی اس معاملے کے ساتھ مخلص نظر نہیں آتے۔ انتظامی بنیادوں پر اس پر غور کیا جا سکتا ہے کہ کسی بڑے صوبے کو تقسیم کر کے چھوٹے صوبے بنائے جا سکتے ہیں یا نہیں، لیکن یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ نئے صوبوں کے قیام سے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔