پاکستان کرکٹ کا زوال، ٹیم کی بُری کارکردگی اور کرکٹ بورڈ کی نااہلیوں نے ویسے ہی پاکستانیوں کو بہت مایوس کیا ہوا ہے لیکن اس کھیل کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو پریشانی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر کسی کی نظر نہیں۔ یقیناً کرکٹ کیلئے سیکورٹی بہت اہم ہے لیکن یہ کیسی کرکٹ ہے کہ جن جن شہروں میں کسی بڑے آئی سی سی ٹورنامنٹ یا کسی غیر ملکی ٹیم کیساتھ میچ منعقد کیا جاتا ہے وہاں کے رہنے والوں کے معمولات ِ زندگی کو تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔ سیکورٹی کے نام پر اسٹیڈیم کے اردگرد کے علاقوں میں رہنے والوں اور ہر قسم کے کاروبارِ زندگی کو کرفیو جیسے ماحول کا سامنا ہوتا ہے جبکہ پورے شہر کی ٹریفک بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے جس سے کوئی بھی پریشانی سے نہیں بچتا۔ چیمپئنز ٹرافی کے حالیہ میچ پاکستان کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں منعقد ہو رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ کرکٹ اسٹیڈیم ان شہروں کے گنجان آباد علاقوں میں واقع ہیں جسکی وجہ سے ان شہروں میں رہنے والوں کی بڑی تعداد کو نہ صرف میچ والے دن بلکہ کسی بھی میچ کے پریکٹس سیشن کے دوران بھی سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہزاروں لوگ کرکٹ کا میچ دیکھنے آتے ہیں تو اُس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو مشکل ڈال دیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں چیمپئنز ٹرافی کے تین میچ راولپنڈی اسٹیڈیم میں ہونے تھے لیکن بارش کی وجہ سے صرف ایک ہی میچ یہاں ہو پایا۔ لیکن اس کے باوجود کئی دن تک راولپنڈی اسلام آباد کے رہنے والوں کیلئے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ جڑواں شہروں میں بار بار اور کئی کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہی جس سے دفاتر جانے والوں، اسکول کالجوں کے طلبہ و طالبات اور دوسرے شہری پریشان ہوئے۔ اس صورتحال میں مریض ہسپتالوں کو نہ جا سکے جبکہ کئی شادیاں اور دوسری تقریبات بھی متاثر ہوئیں۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی کابینہ میں شامل ہونیوالے نئے وزیروں میں سے چند ایک اسی ٹریفک جام ہونے کے باعث حلف لینے کیلئے ایوان صدر دیر سے پہنچے۔ ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے اس کرکٹ نے بہت سوں کو پریشان کیا لیکن اسٹیڈیم کے اردگرد کے علاقوں میں رہنے والوں اور کاروباری طبقات کیلئے تو مشکلات کے انبار تھے۔ رہائشی ہوٹلوں کو تو تین چار دن کیلئے مکمل طور پر بند کروا دیا گیا، دکانوں اور دوسرے کاروبار بھی نہ چل سکے۔ یہاں تک کہ میٹرو کو بھی کرکٹ میچوں اور پریکٹس سیشنز کے دوران بند کر دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بہت سوں کا یہ سوال تھا کہ یہ کیسا کھیل ہے کہ نہ صرف شہر اور کاروبار کو بند کر دیا جاتا ہے بلکہ شہریوں کی بڑی تعداد کو تکلیف اور مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک طرف ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی مایوس کن تو دوسری طرف یہ مشکلات۔ ماضی میں ایک مہمان ٹیم پر دہشتگرد حملے کے باعث پاکستان میں غیر ملکی کرکٹ ٹیموں نے ایک عرصہ تک آنا بند کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے کئی سال کے بعد یہاں کرکٹ کا ایک بڑا ٹورنامنٹ ہو رہا ہے جو پاکستان کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔ لیکن جب سیکورٹی اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ کرکٹ کا میچ شہر اور شہریوں کے لیے مشکلات ہی مشکلات کا باعث بن جائے تو کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ شہروں کے بیچ واقع میدانوں میں میچ کروانے کی بجائے ان بڑے شہروں سے تھوڑا دور نئے اسٹیڈیم بنائے تاکہ میچوں کے دوران نہ سیکورٹی میں مشکل ہو اور نہ ہی شہریوں کی معمول کی زندگی اس طرح متاثر ہو۔دہائیوں پرانے موجودہ کرکٹ اسٹیڈیمز پر کرکٹ بورڈ نے بہت پیسہ خرچ کیا تا کہ ان کو چیمپئنز ٹرافی کیلئے جدید بنایا جاسکے۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ شہروں سے تھوڑا دور نئے کرکٹ اسٹیدیم بنائے جاتے۔ چلیں پہلے ایسا نہ ہو سکا لیکن اب تو حکومت اور کرکٹ بورڈ کو اس معاملہ پر غور کرنا چاہئے تاکہ کھیل کو سب انجوائے کریں اور ایسا نہ ہو کہ جس شہر میں میچ ہو رہے ہوں وہاں کے شہریوں کو پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہی رکھا جائے۔