پاکستان پیپلز پارٹی جمہوری ہونےکے ساتھ ایک عوامی جماعت بھی ہے۔30 نومبر 1967ء کو لاہور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا جس کے چیئر مین ، ذوالفقار علی بھٹو منتخب ہوئے تھے۔ سوشلسٹ نظریات کی اس عوام دوست سیاسی پارٹی کا نعرہ ’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘تھا جبکہ بنیادی منشور تھا:اسلام ہمارا دین ہے،جمہوریت ہماری سیاست ہے،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،سوشلزم ہماری معیشت ہے۔‘‘دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی ، مغربی پاکستان کی سب سے مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی لیکن مشرقی پاکستان میں اسے قطعاً پذیرائی نہ مل سکی ۔
صرف تین سال بعد یعنی 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مذہبی اور نظریاتی جماعتوں کے مقابلے میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہو گئی تھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی وجہ سے صرف ایک سال بعد وہ بر سر اقتدار بھی آگئی۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت رہی ہے کہ جس کی جڑیں عوام میں تھیں اور ہیں۔ پاکستان میں جمہوری اقدار و روایات کے لئے اس جماعت کی کارکردگی مثالی رہی ہے۔
بھٹو صاحب کا سیاسی سفر ایک انقلاب تھا، کیونکہ وہ عوام کے مسائل کو سمجھتے تھے اور ان کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنے پر یقین رکھتے تھے۔یہی طرزفکر انہوں نے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں بھی منتقل کیا۔ آج پیپلز پارٹی سندھ میں عوامی خدمت کےمحض نعروں کی بجائے عملی اقدامات کررہی ہے۔ شازیہ عطا مری بھی سندھ کی سیاست میں ایک نمایاں اور متحرک شخصیت کے طور پر جانی جاتی ہیں، جنہوں نے اپنی عوامی خدمت اور سیاسی بصیرت سے نہ صرف سانگھڑ بلکہ پورے سندھ میں ایک مضبوط مقام بنایا۔ سانگھڑ، جو طویل عرصے تک مخصوص سیاسی خاندانوں کے زیر اثر رہا، وہاں شازیہ مری نے اپنی جدوجہد، مستقل مزاجی اور عملی اقدامات سے نہ صرف جگہ بنائی بلکہ عوامی خدمت کے ذریعے اپنی شناخت کو مزید مستحکم کیا۔
سانگھڑ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے زیادہ تر ووٹرز روایتی وابستگیوں کے باعث مخصوص جماعتوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ ایسے میں کسی نئے سیاسی رہنما کے لیے اعتماد حاصل کرنا اور ایک مؤثر تبدیلی لانا آسان نہیں تھا۔ لیکن شازیہ مری نے عملی سیاست، عوامی رابطے اور خدمت کے جذبے سے یہ ممکن بنا دیا۔ وہ محض سیاسی نعروں پر یقین نہیں رکھتیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرتی ہیں جو عوام کی زندگی میں حقیقی فرق ڈال سکیں۔انکے ترقیاتی کاموں میں سب سے نمایاں منصوبہ اچرو تھر کے دور افتادہ علاقوں میں پانی کی فراہمی ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں 99 فیصد سے زائد ووٹرز کا جھکاؤ ہمیشہ فنکشنل لیگ کی طرف رہا، لیکن شازیہ مری نے سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی خدمت کو ترجیح دی۔
بنجر زمینوں اور شدید خشک سالی سے متاثرہ اس علاقے میں پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ تھا، جس کے باعث مقامی آبادی طویل عرصے سے مشکلات کا شکار تھی۔ شازیہ مری کی کوششوں سے پہلی بار اس علاقے میں جدید واٹر سپلائی اسکیم متعارف کروائی گئی، جسکے نتیجے میں وہاں کے باسیوں کو صاف اور پینے کے قابل پانی میسر آیا۔ یہ منصوبہ نہ صرف ایک ترقیاتی قدم تھا بلکہ ایک ایسا عملی اقدام تھا جس نے ہزاروں زندگیوں پر مثبت اثر ڈالا۔بطور چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)، شازیہ مری نے ملک کے غریب اور محروم طبقات کی مالی معاونت میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا۔ خاص طور پر 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران، جب سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے، انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثرہ خاندانوں تک فوری اور مؤثر مدد پہنچائی۔ان کے دور میں BISP محض ایک امدادی منصوبہ نہیں رہا بلکہ ایک ایسی پالیسی بنی جس نے غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے لیے بھی کئی اصلاحات متعارف کروائیں، جن کے نتیجے میں کمزور اور پسماندہ طبقات کو مالی استحکام حاصل ہوا۔ شازیہ مری کا سیاسی سفر اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اگر قیادت دیانت دار، مخلص اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہو تو کوئی بھی چیلنج ناقابلِ تسخیر نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی مسلسل جدوجہد، ایمانداری اور محنت سے ثابت کیا کہ سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہونی چاہئے۔
سانگھڑ کی سیاست میں اب ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، جہاں خدمت کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے، اور اس مثبت تبدیلی میں شازیہ مری کا کردار کلیدی ہے۔ان کی عوامی خدمات اور قیادت کا انداز اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ اگر سیاست اصولوں، ایمانداری اور عملی اقدامات پر مبنی ہو تو وہ نہ صرف ووٹرز کا اعتماد جیت سکتی ہے بلکہ ایک نئی سیاسی روایت کی بنیاد بھی رکھ سکتی ہے۔ شازیہ مری کی جدوجہد ایک روشن مثال ہے کہ سیاست کا اصل مقصد عوام کی خدمت، ان کے مسائل کا حل اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانا ہونا چاہئے۔