رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اہل خیر اپنے عطیات سے خیراتی اداروں کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کی خدمت کرتے ہیں اور یقینی طور پر اپنے لیے خیر کا ایک ذریعہ تشکیل دیتے ہیں۔پاکستان میں خیر اور فلاح کے کام کرنیوالے اداروں کی ایک لمبی فہرست ہے اور اہل خیر کی بدولت یہ سارے ادارے،سارا سال اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اہل خیر پوری دنیا میں اس حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں ان موذی امراض کے تدارک کے لیے اہل خیر کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔تھیلیسیمیا ان امراض میں سے ایک ہے جو پاکستان میں تیزی سے پھیل رہاہے اور اس کے علاج کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث کئی بچے عالم شیر خوارگی میں ہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔تھیلیسیمیا ایک ایسی بیماری ہے کہ جو بچہ اپنے والدین سے حاصل کرتا ہے۔پاکستان میں اس کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال تقریبا نو ہزار بچے خون کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50 فیصد ایسے افراد ہیں جو تھیلیسیمیا کیریئر ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں کہ وہ تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہیں اور جونہی وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو تھیلیسیمیا کا ایک مریض دنیا میں لانے کا سبب بنتے ہیں۔پاکستان میں رشتہ داروں میں شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے جس کیوجہ سے تھیلیسیمیا جیسے جینیاتی مرض کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے چنانچہ اس خطرے سے دوچار جوڑوں کی شناخت کے لیے شادی سے پہلے اسکریننگ اشد ضروری قرار دی گئی ہے۔سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کی اسکریننگ کے قوانین بہت پہلے نافذ کیے جا چکے ہیں۔ 2012 میں پنجاب اسمبلی میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیا اسکریننگ لازمی قرار دی جا چکی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال پانچ سے چھ ہزار بچے تھیلیسیمیا میجر کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔دنیا میں کئی ممالک نے اس وراثتی بیماری کے تدارک کے لیے شادی سے پہلے اسکریننگ کے قوانین مرتب کیے ہیں قبرص میں شادی سے پہلے اور پھر پیدائش سے پہلے اسکریننگ کے امتزاج نے اس بیماری کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کو صفر تک کم کرنے میں مدد دی ہے۔اسی طرح سعودی عرب میں شادی سے پہلے اسکریننگ پروگرام کے نفاذ کے چھ سال بعد تھیلیسیمیا کے پھیلاؤ میں 70 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی۔سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات، ایران، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ وغیرہ میں شادی سے پہلے تھیلیسیمیاا سکریننگ لازمی قرار دی گئی ہے۔ اس طرح کے اسکریننگ پروگرام صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب خون کی اس بیماری کے حوالے سے آبادی کو بڑے پیمانے پر تعلیم دی جائے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی ''بیٹا تھیلیسیمیا'' کیریئر ہے۔اگر ایسےدو افراد کی شادی ہو جائے کہ دونوں کیریئر ہوں تو اگلی نسل میں تھیلیسیمیا میجر بچہ پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ایسے جوڑوں میں 25 فیصد صحت مند 25 فیصد تھیلسیمیا میجر اور 50 فیصد تھیلیسیمیا مائنر کے ساتھ بچے پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کیریئر کی شناخت سے ملک میں بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔تھیلیسیمیا کے حامل زیادہ تر بچے تو صحت مند پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی زندگی کے پہلے دو سالوں میں علامات پیدا ہوتی ہیں اور کوئی بھی ٹیسٹ کروانے سے ظاہر ہوتی ہیں۔جسمانی معائنے کے دوران بچوں میں تھیلیسیمیا کی علامات جیسے چہرے کی ہڈیوں کی خرابی، بڑھتی ہوئی تلی، پیٹ میں سوجن کی وجہ سے اس کی بیماری کا امکان پایا جا سکتا ہے۔پاکستان میں ایک طویل عرصے تک تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے کوئی ادارہ نہیں تھا اور ایسے بچے انہی پیچیدگیوں کے ساتھ پیدائش کے چند ماہ بعد ہی انتقال کر جاتے تھے۔1978 میں ناظم جیوا نے فاطمید فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔اس وقت پاکستان بھر میں فاطمید فاؤنڈیشن کے 10 سینٹرز تھیلیسیمیا مریضوں کو خون کے اجزا جدید ترین مشینوں پر ٹیسٹوں کے بعد مفت فراہم کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ رجسٹرڈ مریضوں کے لیے تمام ادویہ کی فراہمی بھی مفت ہے۔فاطمید فاؤنڈیشن کا یہ اعزاز بھی ہے کہ آج ایسے رجسٹرڈ مریض بھی موجود ہیں جو 40 سے 48 سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور اس وقت تک وہ فاطمید کی خدمات سے استفادہ کر رہے ہیں اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ 40 سال کی عمر کو پہنچنے والے تھیلیسیمیا کے مریضوں کی زندگی فاطمید فاؤنڈیشن کی مرہون منت ہے کیونکہ اگر انہیں جدید مشینوں پر ٹیسٹ شدہ خون اور ادویہ باقاعدگی سے نہ ملتیں تو شاید وہ اتنی لمبی زندگی کبھی نہ جی سکتے۔ فاطمید فاؤنڈیشن کی انتظامیہ کا یہ کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کے نوجوان خون عطیہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جب بھی نوجوانوں کو پکارا جاتا ہے وہ خون کے عطیات دینے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ان مخیر حضرات کو بھی سلام ہے جوتھیلیسیمیا کے مستحق مریضوں کو ادویہ کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں فاطمید فاؤنڈیشن سمیت ان تمام اداروں کے ساتھ تعاون کریں جو بچوں کو اس موذی مرض کے مقابلے کے لیے تیار کر رہے ہیں ان کے لیے ادویات فراہم کر رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر ملٹری ہاسپٹل راولپنڈی میں بھی تھیلیسیمیا کا یونٹ قابل قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے اور یہاں پر بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کام بھی ایک عرصے سے خاموشی کے ساتھ جاری ہے۔پاک فوج کا یہ اہم ادارہ بھی اس کام کے حوالے سے خراج تحسین کا مستحق ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں تمام مخیر حضرات سے یہ درخواست ہے کہ وہ ان اداروں کی مستقل بنیادوں پر سرپرستی کریں تاکہ پاکستان اس موذی مرض سے مستقل طور پر چھٹکارا حاصل کر سکے۔