• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں نماز جمعہ کے بعد دہشت گردی کی کارروائی ایسا بدترین واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس دلخراش واقعہ میں مولانا حامدالحق سمیت کئی دیگر بے گناہ نمازی شہید ہوئے۔ بعد نماز و دعا کے اس وقت تقریباً 20فیصد نمازی موجود تھے یہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ تھا اور نشانہ مولانا حامدالحق تھے۔ مولانا حامدالحق اہم ترین مذہبی رہنما اور مولانا سمیع الحق مرحوم کے فرزند تھے وہ جامعہ حقانیہ کے نائب مہتمم بھی تھے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک صوبہ خیبرپختونخواکی سب سے بڑی علوم دین کی مشہور درسگاہ ہے۔ اس جامعہ سے کئی افغان طالبان رہنمائوں نے بھی تعلیم حاصل کی ہے ان میں سراج الدین حقانی سمیت حقانی نیٹ ورک کے کئی رہنما شامل ہیں۔ بلکہ انہوں نے اسی نسبت سے حقانی کو اپنے ناموں کا حصہ بھی بنایا ہوا ہے۔ ان میں سراج الدین حقانی کے علاوہ عبدالحکیم حقانی اور مولانا خیراللہ خیرخواہ جیسے اہم رہنما شامل ہیں۔

اگر اس صورتحال کو دیکھا جائے تو کوئی بھی طالبان جامعہ حقانی میں دہشت گردی اور مولانا حامدالحق کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف مبینہ طور پر مولانا حامدالحق شہید نے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے واضح طور پر خواتین کی تعلیم پر پابندی کو خلاف اسلام قرار دیا تھا ان کو اس بیان پر کئی بار دھمکیاں بھی دی گئی تھیں لیکن وہ اپنے بیان پر ڈٹے رہے تھے۔ اس واقعہ کی تحقیقات ہورہی ہیں اور تحقیقات مکمل ہونے پر اصل وجوہات ضرور سامنے آئیں گی کہ اس بدترین واقعہ میں کون ملوث ہے اور اس کے سہولت کار کون تھے۔ اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امکان کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ اس میں بیرونی طاقتیں کس حد تک ملوث ہوسکتی ہیں۔ یہ تو سو فیصد واضح ہے کہ بھارت افغانستان میں مقیم دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی مدد و معاونت کرتا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان تنظیموں کو افغان سرزمین پر رہنے اور رہائش لاجسٹک سپورٹ وغیرہ کس نے فراہم کی ہے۔ پاکستان نے متعدد بار پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں ملوث ان خوارج کی افغانستان میں موجودگی کی افغان عبوری حکومت سے ثبوتوں سمیت شکایات کی ہیں اور یہ شکایات صرف زبانی نہیں بلکہ تحریری طور پر سامنے رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ جہنم رسید کئے گئے ان خوارج میں سے کئی کے پاس وہ اسلحہ بھی ملا ہے جو امریکہ افغانستان میں چھوڑ گیا تھا جس کو طالبان حکومت نے قبضہ میں لے لیا تھا۔ اس سوال کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ آخر وہی اسلحہ فتنہ الخوارج کے پاس کیسے پہنچا ہے ؟۔ دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ افغان عبوری حکومت آخر ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کرکے انکوافغان سرمین سے بیدخل کیوں نہیں کرتی۔

جامعہ حقانیہ کے اندوہناک واقعہ سے خیبرپختونخوا حکومت کی نااہلی اور لاپروائی صاف نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ابتدا میں بیان جاری کیا گیا کہ مولانا حامدالحق کی سیکورٹی پر چھ پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ نماز جمعہ کے موقع پر بیس پولیس اہلکار مزید تعینات تھے اگر واقعی ایسا ہی ہے تو اتنی سیکورٹی کے باوجود خودکش حملہ آور بھاری بارودی مواد کے ساتھ مولانا تک کیسے پہنچا آخر کہیں تو کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے ،وہ کیسے پولیس اہلکار تھے جو اپنی اتنی اہم ذمہ داری سے لاپروا رہے کیا ان سے بھی تفتیش ہوگی کیا وہ بھی ذمہ دار نہیں بنتے؟۔ صوبائی وزیراعلیٰ گنڈاپور نے اس واقعہ کو وہ اہمیت ہی نہیں جو دینی چاہئے تھی کیا بحیثیت صوبائی وزیراعلیٰ وہ اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور تو اس واقعہ کے بعد اکوڑہ خٹک تعزیت کیلئے جانے کے بجائے افغانستان کیساتھ مذاکرات کرنے اور طورخم بارڈر کھلوانے میں زیادہ سرگرم ہوگئے ہیں اور افغان قونصلر سے ملاقات بھی اسی سلسلے میں کرچکے۔ خیبرپختونخواکے عوام سوال کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب پر دہشت گردوں کی مدد سے حملہ آور ہونے اور وفاق و ریاستی اداروں کو سرعام دھمکیاں دینے کے باوجود ان کیخلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ کرم کے حالات اب بھی صوبائی حکومت کے قابو سے باہر ہیں اور لوگوں نے سڑکوں کی طویل بندش، اشیائے خوردونوش اور ادویات کی قلت کے باعث پھر دھرنا دیا ہوا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات، فسادات پیدا کرکے بداعتمادی پیدا کرنا، ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنا کس کا ایجنڈا ہے۔ پاکستان میں وہ کون لوگ ہیں جو ملک کو تباہ و برباد کرنے والوں کے سہولت کار ہیں۔ وہ کون بدبخت ہیں جو بے گناہ پاکستانیوں اور ملکی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکاروں پر حملہ آور ہونے والوں کو پاکستان میں سہولیات فراہم کرتے ہیں اور ان کی مکمل سرکوبی کیوں نہیں کی جاتی۔ اس تمام صورتحال میں اب کسی بھی افغان شہری کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دینا کونسی منطق ہے۔ تمام غیر قانونی افغان باشندوں کو فوری طور پر پاکستان سے بیدخل کرنا پاکستانی عوام اور وقت کا اہم تقاضاہے اور ملکی سالمیت اور بے گناہوں کے خون بہانےکو روکنے کیلئے اب کسی بھی مصلحت یا مجبوری کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئے۔ پاکستان کو اپنے فیصلے خودکرنے کی ہمت کرنی چاہئے ورنہ پھر کچھ بھی نہیں رہے گا۔

پاکستان کے دشمن غیرملکی جریدوں میں ریاستی اداروں اور ملک کے خلاف مضامین شائع کرواکر ملک کو بدنام کرنے کی مکروہ کوششوں میں مصروف ہیں جس پر اگلے کالم میں تفصیلی جائزہ پیش کریں گے انشااللہ۔ اس میں شامل لوگوں اور ان کے مقاصد اور ناکامیوں کو کچھ تفصیلات اور جھوٹ پر مبنی مہم کی حقیقت تک پہنچنے کی بھی کوشش کریں گے۔

تازہ ترین