گلے شکوے طنز تشنیع میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔
پھر ہمیں سوشل میڈیا کے زود اثر آلات مل گئے ہیں ہم ہر آلے کو ہتھیار بنا لیتے ہیں۔ آنچل کو پرچم تو بناتے نہیں ہیں ۔ایک شکایت ہم بزرگوں کا فیشن بن گئی ہے کہ نئی نسل سنجیدہ نہیں ہے کتاب نہیں پڑھتی ادب سے واسطہ نہیں رکھتی یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔
میں عمر کے جس حصے میں ہوں وہاں ہم جیسے عمر رسیدگان کی کسی ادبی نشست سیمینار یا کتاب کی رونمائی کی تقریب کی صدارت کے علاوہ کوئی ترکیب استعمال نہیں ہے اکثر ادبی تنظیمیں سب کچھ طے کرنے کے بعد دیکھتی ہیں کہ 70/ 75 کے اوپر کے کون کون سے لکھنے والے موجود ہیں، ہم جیسے بہت سے تو خود ایسے سنہرے مواقع کے انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ اپنی بزرگی تجربے اور عقلمندی کا رعب جھاڑ سکیں۔ تنظیمیں زیادہ تر مہمانان خصوصی، مہمانان اعزازی، مہمانان توقیری اور ایسے ہی عہدے عطا کر کے مقررین کی ٹیمیں تیار کر لیتی ہیں لیکن اچھے سامعین کو مدعو کرنے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور سامعین میں بھی زیادہ لوگ 50 /55 سے اوپر کے۔ بہت کم کوشش کی جاتی ہے کہ 18سے 28سال تک کے نوجوانوں کو بھی مدعو کیا جائے جو یونیورسٹیوں کالجوں میں اردو، سیاسیات، فلسفے، سوشیالوجی انگریزی کے شعبوں میں تحصیل علم میں مصروف ہیں لاہور میں ماہنامہ تخلیق کے تیرہویں ادبی ایوارڈ کیلئے بہت محنت کی گئی۔ لاہور پشاور فیصل آباد اٹک ملتان مردان تک کے اہل قلم موجود تھے سمندر پار سے بھی خواتین آئی ہوئی تھیں لیکن لاہور کی کسی یونیورسٹی، کالج کے طلبہ طالبات نہیں تھے میں نے وہاں بھی یہ توجہ دلائی کہ ہمیں پرانی اور نئی نسل کے ملاپ کیلئے شعوری کوششیں کرنی چاہئیں، نوجوانوں میں ایسے بے شمار عشاق موجود ہیں جو اردو پنجابی سرائیکی سندھی بلوچی پشتو براہوی سے محبت کرتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں۔ ولی دکنی سے لے کر فیض احمد فیض تک کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں،ادبی تہواروں میں اپنے طور پر مارے مارے پھرتے ہیں ان کی پیاس بجھنی چاہیے۔
کراچی میں استاد الاساتذہ ڈاکٹر یونس حسنی کی دو اعلیٰ معیاری تصنیفات ’’توازن‘‘ اور ’’نثر اختر‘‘ کی رونمائی ادبیات پاکستان کراچی میں تھی محبان بھوپال کی جوڑی اویس ادیب انصاری اور شگفتہ فرحت نے بہت جتن کیے۔ مقررین جمع کیے مگر سب میری اور میری بیگم کی طرح بیسویں صدی کی یادگار یں۔ قابل قدر ہیں یہ میرے ہم عمر جو کراچی کے دور دراز علاقوں سے اپنی موٹر سائیکلوں یا کئی کئی بسیں بدل کر اس مقام آہ و فغاں تک پہنچتے ہیں۔ ان میں مصنف بھی ہیں محقق بھی پروفیسرز بھی شاعر بھی لیکن نئی نسل میں سے کبھی کبھی کوئی ایک دانہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ بزرگ بھی اپنی آئندہ نسل کو ساتھ نہیں لاتے۔ بہت اہم پر مغز مقالے بھی پڑھے جاتے ہیں لیکن یہ ہمارے مستقبل کے ذہنوں اور کانوں تک نہیں پہنچ رہے۔ ایک مشکل وقت کی بھی ہے۔ 21ویں صدی کے طالب علموں کیلئے صبح سے دوپہر تک کا وقت موزوں ہے۔ بیسویں صدی والے اپنے کام سے فارغ ہو کر سہ پہر کے بعد ہی آنا چاہتے ہیں۔ اس واضح فرق کے باعث نئی اور پرانی نسل میں فاصلہ بڑھ رہا ہے بزرگ اور نوجوان عشاق ادب الگ الگ جزیرے بن رہے ہیں یونیورسٹیوں میں جو تقریبات ہوتی ہیں جہاں طالب علموں کی تعداد ماشاءاللہ کافی ہوتی ہے، میں نے اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ یہ بیٹے بیٹیاں اپنی نوٹ بکیں نکال کر ہمارے جملے درج بھی کر رہی ہوتی ہیں۔ ہماری ’’اخبار جہاں‘‘ کی رفیق کار کئی کتابوں کی مصنف علامہ اقبال گرلز کالج جیسی معیاری درسگاہ کی کئی سال پرنسپل رہنے والی نوشابہ صدیقی اب جمیل جالبی تحقیقی لائبریری میں تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں جو زیادہ تر صبح میں ہوتا ہے وہاں اساتذہ اور طالب علموں کی کچھ تعداد تو ہوتی ہے مگر ادبی محفلوں میں شرکت کرنیوالے بزرگ زیادہ تر نہیں پہنچ پاتے، دفتری اور درسگاہی اوقات میں یہ تصادم اور تضاد ہمارے حال اور مستقبل میں رابطہ نہیں ہونے دے رہا ۔
میرے خیال میں تو اس سلسلے میں ملک بھر میں ان درسگاہوں اور ادبی تنظیموں کے درمیان سنجیدگی سے کوئی اشتراک عمل ہونا چاہیے، معاشرے میں وحشت بڑھ رہی ہے، تہذیب خاک بسر ہے، ثقافت لاوارث ہو رہی ہے، بلوچستان ہو سندھ خیبر پختون خواہ پنجاب آزاد کشمیر گلگت بلتستان یہ سماجی سانحہ رونما ہو رہا ہے، کالجوں یونیورسٹیوں کے میگزین شائع نہیں ہو رہے، اس لیے نئی نسل کی تخلیقات شرمندہ اشاعت نہیں ہو رہیں گورنمنٹ کالج لاہور کا ’’راوی‘‘ دریائے راوی کی طرح روانی سے محروم ہے پنجاب یونیورسٹی کا ’’محور‘‘ بھی گردش میں نہیں ہے جامعہ کراچی کا ’’جریدہ‘‘ بھی جاری نہیں ہو رہا ۔ ہم نے روزنامہ جنگ میں 90کی دہائی میں کالج میگزینوں کا ایک ملک گیر مقابلہ منعقد کروایا تھا اب بھی ضرورت ہے کہ درسگاہوں میں یہ میگزین سال میں دو تین بار شائع ہوں اور ان کی ڈیجیٹلائزیشن کا بھی اہتمام کیا جائے تحقیق کی جرنل اپنی جگہ لیکن ان میں تخلیقی مہک نہیں ہوتی ہے ان کی ٹیکنیکل اور اکیڈمک پابندیاں تحریر سے گرم جوشی نکال دیتی ہیں۔
گورنمنٹ کالج لاہور کی مجلس اقبال کی طرح ہر کالج میں ایک بزم ادب موجود ہے اس کے ذریعے بھی نئی نسل اور پرانی نسل کی یکجائی کا انتظام ہو سکتا ہے آج کے دور میں جب سرمایہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ماحول پورا کاروباری اور کرخنداری ہوتا جا رہا ہے اشیائے ضروریہ تو اپنی جگہ مہنگی ہیں ہی ہم ایک دوسرے کی مجبوری کی بھی قیمت وصول کر رہے ہیں سرمایہ شمشیر اور دانش کے بھی دام لگا رہا ہے تہذیب کی بولی لگی ہوئی ہے اخلاقیات کو غیر ضروری قرار دے کر روزمرہ سے نکالا جا رہا ہے ایسے ماحول میں جو پودے کاشت ہو رہے ہیں وہ جلدی سوکھ جاتے ہیں غنچے بن کھلے مرجھا رہے ہیں۔ کلیاں پھول نہیں بن پا رہیں۔ ماضی اور حال میں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ مستقبل تو دور کھڑا حیران پریشان ہے کہ وہ اس خطے میں اترنے کی جرات کرے کہ نہیں۔
ہمارے ادبی رسالوں کے مدیروں سنجیدہ اور بامقصد شاعروں درد مند، نقادوں رحجان ساز ناول نگاروں شعبہ اردو سیاسیات سماجیات انگریزی سندھی پشتو پنجابی بلوچی کے اساتذہ کو سوچنا چاہیے کہ نئے ذہنوں کو اپنے اظہار کے مواقع کیسے دیے جا سکتے ہیں ماضی اور حال کے لکھنے والوں کے درمیان فعال رابطہ کیسے ہو۔ کتابوں کی رونمائی کی تقریبات میں ہمارے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کس طرح بڑی تعداد میں شریک ہوں تاکہ کتاب نئی نسل تک پہنچ سکے اور یہ بھی پیش نظر رہے کہ کتاب صرف شاعری افسانے اور ناول کا نام نہیں۔ کتاب تاریخ، جغرافیہ، نباتات، جمادات، حیوانات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل، نفسیات، سیاسیات، اسلامیات سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔ مستقبل کے درد مند باشعور پاکستانی حال کے درد مند باشعور پاکستانیوں میں قربت سے ہی تیار ہو سکتے ہیں اور صرف ورقی ہی نہیں یہ اہتمام برقی بھی ہونا چاہئے۔