• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14؍اگست 1947ء کی سہ پہر وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کی دَستور ساز اسمبلی کے صدر قائدِاعظم محمد علی جناح کو اِقتدار منتقل کیا اور یوں دستوری طور پر پاکستان وجود میں آ گیا تھا، لیکن پاکستان کے لیے عوامی جدوجہد کا اعلان آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ لاہور کے ذریعے 23مارچ 1940ء کو کیا تھا اور سات سال سے زائد سیاسی اور آئینی جدوجہد کے نتیجے میں برِصغیر کے مسلمان اپنے لیے ایک آزاد وَطن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مارچ کے مہینے کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے کہ 12مارچ 1949ء کو پہلی دستورساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصد منظور ہوئی۔ اِس کے سات برس بعد 23 مارچ 1956ء کو پہلا دستور نافذ ہوا اَور پاکستان ڈومینین کی تنگنائے سے نکل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کھلی فضا میں جلوہ گر ہوا۔

برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین تاریخ ساز سیاسی مفاہمت کے نتیجے میں جولائی 1947ء میں ’’قانونِ آزادیِ ہند‘‘ منظور کیا جس میں دو مملکتوں پاکستان اور اِنڈین یونین کے قیام کا پورا نقشہ دیا گیا تھا اور یہ وضاحت کی گئی تھی کہ یہ دونوں مملکتیں 1935ء کے ایکٹ کو عارضی دستور کے طور پر اختیار کریں گی جب تک اُن کی خود مختار دَستور ساز اسمبلی مستقل آئین منظور نہیں کر لیتی۔ پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہ بحث چل نکلی کہ نیا دستور کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ میں اور اُس کے باہر ایسے عناصر بھی پائے جاتے تھے جو ریاست کو مذہب سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے، مگر عوام و خواص میں اسلام کے احیا کی بےپایاں تڑپ اور اُمنگ پائی جاتی تھی۔ تب یہ سوال پیدا ہوا کہ اسلامی نظام کا کوئی آئینی نمونہ موجود ہی نہیں، تو اُسے دستوری حیثیت کیونکر دی جائے۔ یہ مسئلہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے 1948ء کے آغاز ہی میں حل کر دیا تھا جب اُنہوں نے ’مطالبہ دستورِ اسلامی‘ کی مہم چلائی اور اُس میں اسلامی دستور کے واضح نکات پیش کیے تھے۔ اُن میں بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی متعین صورتیں تجویز کی گئی تھیں۔ اِس مہم کے نتیجے میں شہریوں نے بہت بڑی تعداد میں دستخط شدہ مطالبات دستورساز اسمبلی کو بھیجنا شروع کر دیے۔ اُس وقت دستورساز اسمبلی میں مسلم لیگ کی طرف سے مولانا شبیر احمد عثمانی دستورسازی کے معاملات کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اُنہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں بوریوں میں نظامِ اسلامی کے مطالبات عوام کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں۔ اِس کیفیت میں چوٹی کے علما، دانش ور اَور متوازن ذہن کے سیاست دان سر جوڑ کے بیٹھے اور اُنہوں نے کمال فہم و فراست سے قراردادِ مقاصد کا مسودہ تیار کیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا شبیر احمد عثمانی، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، مولانا اکرم خاں، ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ، پروفیسر ڈاکٹر عمر حیات ملک، مولوی تمیزالدین خاں، سردار عبدالرب نشتر، سر ظفراللہ خاں اور جناب لیاقت علی خاں شب و روز اِس قرارداد کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتے رہے۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اُن دنوں ملتان جیل میں قید تھے۔ اُن کی منظوری کے لیے مولانا ظفر احمد انصاری جیل پہنچے اور مولانا کی خدمت میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا جس سے اُنہوں نے اتفاق فرمایا۔ اِس کے بعد یہ مسودہ بِل کی صورت میں دستورساز اسمبلی میں 9 مارچ 1949ء کو پیش کیا گیا۔

قرارداد پر دستورساز اسمبلی میں چار رَوز گرماگرم بحث ہوئی۔ کانگریس کے نصف درجن کے لگ بھگ ہندو اَرکان جو مشرقی بنگال سے منتخب ہوئے تھے، وہ اِس کی مخالفت کرتے رہے، لیکن دستورساز اسمبلی میں سات آٹھ پُرمغز تقریریں ہوئیں جن کے باعث دستورسازی کا ایک نازک مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا اور یہ قرارداد ہر دستور میں دیباچے کی صورت میں شامل کی گئی۔ یہ عظیم الشان قرارداد اِسلام اور جمہوریت کے اصولوں کا ایک حسین امتزاج اور شاہکار ہے۔ اِس میں انسانی حاکمیت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اعلان کیا گیا ہے جس کی نگاہ میں سب انسان برابر ہیں۔ اِس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ربِ کائنات نے اقتدار اَپنے بندوں کو اَمانت کے طور پر سپرد کیا ہے جو اُس کی بتائی ہوئی حدود و قیود میں استعمال کیا جا سکے گا۔ اِس قرارداد میں ایک ایسی شِق بھی رکھی گئی جس کی مثال دنیا کے کسی اور دَستور میں نہیں ملتی۔ اِس میں صراحت سے تحریر کیا گیا ہے کہ اقتدار کو بروئےکار لانے کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہو گا۔ اِس لاجواب شِق نے فوجی آمریت کے دروازے یکسر بند کر دیے تھے۔ مَیں اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جب مسٹر بھٹو کے دور میں مارشل لا کے تحت گرفتار کیے گئے، تو ہمارے بہنوئی جناب ضیاء الرحمٰن نے بیرسٹر محمد انور کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں یہ پٹیشن داخل کی کہ قراردادِ مقاصد کی رو سے موجودہ حکمران غاصب ہیں، اِس لیے اِن کے احکام کو غیرآئینی قرار دَے کر میرے بھائیوں کو رہا کیا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فاضل بینچ نے ہماری استدعا قبول کرتے ہوئے ہمیں رہا کر دیا اور حکومت کے حکم کو غیرقانونی قرار دَے دیا۔ حکومت اپیل میں سپریم کورٹ چلی گئی۔ چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں فاضل بینچ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ قراردادِ مقاصد آئین کا نافذالعمل حصّہ نہیں، اِس لیے اِس کے تحت ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ اِس کے بعد جنرل ضیا الحق نے قراردادِ مقاصد کو دستور کا نافذالعمل حصہ بنا دیا اور یوں وہ ایک مضبوط حصار کی حیثیت سے موجود ہے۔

سندھ کے وزیرِاعلیٰ جناب سیّد مراد علی شاہ جو ایک پڑھے لکھے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے اور تاریخی شعور سے مالامال دکھائی دیتے ہیں، اُنہوں نے قراردادِ مقاصد کے بارے میں ایک دلکشا پیغام جاری کیا ہے جو اُن بدگمانیوں اور کج بحثیوں کا ازالہ کر سکتا ہے جو دین سے بیزار لوگ وقفے وقفے سے اٹھاتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’’پہلی دستورساز اسمبلی نے قرار دادِ مقاصد منظور کی جو پاکستان کے آئینی، جمہوری اور سیاسی اصولوں کی بنیاد بنی۔ اِس قرارداد نے اسلامی اقدار کو تحفظ فراہم کیا اور جمہوری روایات کو مستحکم کیا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ شہید بھٹو نے قراردادِ مقاصد کو آئین، جمہوریت کے استحکام اور عوامی حقوق کے لیے سنگِ میل قرار دِیا تھا۔‘‘

تازہ ترین