• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا گزشتہ روز فاکس بزنس سے گفتگو میں یہ انکشاف کہ انہوں نے ایرانی قیادت کو خط لکھا ہے جس میں ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی پیشکش کے ساتھ ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ایران بات چیت کا راستہ اختیار نہیں کرتا تو پھر امریکہ کو فوجی کارروائی کرنا ہو گی جو ایران کیلئے خوفناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دنیا میں ایک اور ایٹمی طاقت کے وجود میں آنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بظاہر یہ خط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو لکھا گیا ہے تاہم وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں، فوجی کارروائی یا معاہدہ ۔ میں معاہدہ کرنے کو ترجیح دوں گا، ایران کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتا۔ ایرانی حکومت نے تادم تحریر ایسے کسی خط کے موصول ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے سوال پر اپنی حکومت کا مؤقف ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ہم اس وقت تک امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے، جب تک وہ اپنی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اور اپنی دھمکیاں جاری رکھے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو فوجی کارروائیوں سے تباہ نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہم نے اپنی کوشش اور محنت سے حاصل کی ہے، یہ ٹیکنالوجی ہمارے دماغ میں ہے اور اس پر بمباری نہیں کی جا سکتی۔انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تواس کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا اور پورے خطے میں جنگ کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ مذاکرات کے لیے صدر ٹرمپ کی دھمکی آمیز پیشکش پر ایرانی وزیر خارجہ کا یہ ردعمل ایک خوددار و خود مختار مملکت کے متوقع رویے کے عین مطابق ہے جبکہ ایک عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے صدر ٹرمپ سے جس متحمل مزاجی، حکمت و تدبر اور غیر عجلت پسندانہ طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے، بدقسمتی سے بالعموم وہ اس پر پورا نہیں اترتے۔امریکہ کی صدارت کا منصب دوبارہ سنبھالتے ہی انہوں نے جس طرح غزہ پر امریکی قبضے ، فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کرکے دوسرے ملکوں میں دھکیل دینے اور ان ملکوں کی طرف سے اس من مانی کو قبول نہ کرنے کی صورت میں ان سے مالی تعاون بند کردینے کے اعلانات کیے، وہ ان کی اس اُفتاد طبع کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو تہران کا مستقل مؤقف ہے کہ اس کا مقصد جوہری ہتھیار بنانا نہیں بلکہ اس صلاحیت کو تعمیری مقاصد کی خاطر استعمال کرنا ہے۔تاہم اس حوالے سے اگر موجودہ امریکی قیادت کو کچھ تحفظات ہیں اور وہ ایرانی حکومت سے اس پر بات چیت کی خواہاں ہے تو مذاکرات کی دعوت فوجی کارروائی کی دھمکیوں کے ساتھ نہیں بلکہ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے برابری کی بنیاد پر باہمی احترام اور شائستگی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دی جانی چاہیے۔ایرانی وزیر خارجہ کے بیان سے واضح ہے کہ ایران اس صورت میں بات چیت کا راستہ اپنانے سے گریز نہیں کرے گا۔ ان حالات میںروس کی جانب سے امریکہ اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش نہایت بروقت ہے ۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کریملن نے تہران کے جوہری پروگرام پر کشیدگی کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن کوشش کا عزم ظاہر کیا ہے اور روسی نائب وزیر خارجہ نے اس حوالے سے ایرانی سفیر سے بین الاقوامی کوششوں پر مفصل تبادلہ خیال کیاہے۔ روس کی اس پیشکش کا امریکہ اور ایران دونوں مثبت جواب دے کر مسئلے کو پرامن طور پر حل کرسکتے ہیں اور دنیا کو ایک نئی جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے اس راہ کا اختیار کیا جانا ہی بصیرت و ہوشمندی کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین