پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو پائندہ رہو۔ روشنیوں رنگوں کی لہرو زندہ رہو پائندہ رہو
خان جی یاد آرہے ہیں اپنے منیر نیازی۔ جنگ ستمبر کے بعد کوئی لاہور کو سلام بھیج رہا تھا کوئی سرگودھا کو کوئی سیالکوٹ چونڈا کو۔ 1971میں کراچی آر زوؤں کا مرکز تھا مگر منیر نیازی نے پاکستان کے سارے شہروں کو سلام عقیدت پیش کیا۔ یقینی طور پر اس عظیم مملکت کا ہر شہر ہماری مدح کا حقدار ہے کہ کیسی کیسی قیامتیں گزری ہیں۔ پھر بھی شہروں نے ہمت نہیں ہاری۔ آگے بڑھتے رہے اپنی حدود میں پیدا ہونے والوں کی دیکھ بھال کرتے رہے بلکہ اپنی آغوش میں لے کر مامتا ،شفقت نچھاور کرتے رہے۔
1971 میں ملک دولخت ہونے کے بعد تو ہر شہر میں مافیاؤں کا راج ہوتا چلا گیا ۔ان شہروں میں ان منہ زور مافیاؤں کو بھی برداشت کیا انہیں اگرچہ پوری طرح لگام نہیں دے سکے مگر لاکھوں بیٹوں بیٹیوں کو ان مافیاؤں کے جبر سے نجات دلائی ان کو اپنی پیاری سہانی گلیوں میں کچے گھر بسانے دیے ٹین کی چھتیں ڈالنے دیں۔ کہیں پینے کا پانی نہیں تھا کہیں گیس نہیں تھی ،بجلی نہیں تھی شہروں نے اف نہیں کی آبادی دگنی تگنی چوگنی ہوتی گئی۔ شہر نے سب کو اپنے سینے سے لگایا ۔پھر ایک دور آیا کہ مہمان دہشت گرد بن گئے کلاشنکوف سے میزبانوں کو بھوننے لگے ان شہروں کے نوجوانوں کو یرغمال بنانے لگے ریاست ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ سقوط ہوئے قحط آئے خشک سالی ،کووڈ جیسی عالمگیر وبائیں مگر پاکستان کے سارے شہروں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا سسٹم ٹوٹ چکے تھے ۔ادارے بکھر گئے تھے ۔بلدیاتی حکومتیں ناکارہ کر دی گئی تھیں۔ پینے کا پانی بک رہا تھا، کہیں پانی پینے پلانے پر جھگڑے، صوبے آپس میں پینے کے پانی پر دریاؤں کی لہروں پر جھگڑتے تھے۔ وفاق مشترکہ اختیارات کی میٹنگ بلانے کی بجائے تماشہ دیکھتا تھا۔
آج اتوار ہے رمضان المبارک کا دوسرا اتوار۔ اب تو افطار و سحر پر خاندان اکٹھے ہوتے ہیں مسجدوں میں محلے دار اجنبی مسافر رمضان شہر اور شہریوں کو اور قریب لے آتا ہے۔ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ مل کر جب یہ صدا گونجتی ہے اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا تیرے اوپر ایمان لایا اور تجھ پہ بھروسہ کیا اور تیرے رزق سے کھول رہا ہوں تو ہر شہر کتنا خوش ہوتا ہے۔ شہر آپ کیلئےاللہ تعالیٰ کی نعمتیں سنبھالتے ہیں شہروں کے شہریوں پر کتنے احسانات ہیں میرا پیغام تو یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے گھر کو مستحکم کریں بیٹوں بیٹیوں سے کھل کر باتیں کریں ان کے ذہن میں جھانکیں پھر محلے داری کی روایات اور اقدار کو بحال کریں۔ رمضان کا مبارک مہینہ اس کیلئے موزوں ترین ہے۔ مسجدوں میں رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ ہر ایک سے مصافحہ کریں خاص طور پر نوجوانوں سے نو عمروں سے۔ ایک دوسرے کے گھر میں افطاری کا تبادلہ کریں آپ کا گھر مستحکم تو محلہ مستحکم۔ محلے مستحکم تو شہر مستحکم اور محفوظ۔
پاکستان میں ساڑھے چھ ہزار کے قریب شہر قصبے اور گاؤں ہیں۔ ایک سے ایک بڑی قدیم تاریخ رکھتا ہے۔ کوئی شہر پانچ ہزار سال سے سانس لے رہا ہے کہیں 10 ہزار سال پرانی زندگی کے آثار ہیں۔ کہیں اس سے بھی زیادہ۔ کسی شہر کی حفاظت دریا کر رہا ہے کسی کی چٹانیں۔ ہر شہر کا طرز تعمیر الگ ہے ۔ کتنے بحران آئیں۔ خلفشار ہو ہڑتالیں ہوں شہر کے بام و در گلیاں نکڑیں اپنے شہریوں کو حصار میں لے لیتے ہیں۔ میں تو شہروں کا مقروض ہوں ۔راجپورہ ریاست پٹیالہ میری جنم بھومی انبالہ چھاؤنی جس نے ہمیں باحفاظت ایک مال گاڑی سے پاکستان جانے دیا۔ لاہور گجرات منڈی بہاؤالدین میں ہفتوں مہینوں قیام۔ پھر جھنگ شہر نے ہمیں گود لے لیا ۔شہر عشق کرتے ہیں عشق کرنے دیتے ہیں۔ آپ کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ یہ خاندان برادری تعلقات ادارے نہیں دیکھتے میرٹ پر آپ کی پرورش کرتے ہیں ۔
آج میں آپ سے بہت سنجیدگی سے بات کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اپنے شہر کے مقروض ہیں ان شہروں کے ہم سب پر جتنے احسانات ہیں وہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں مگر ہم اکثر احسان فراموشی کر جاتے ہیں۔ بتائیے کہ آپ کے شہر نے آپ کی پیدائش سے لے کر اب تک آپ کیلئے کیا نہیں کیا، آپ نے اپنی عمر عزیز میں ان کیلئے کیا کیا ہے۔ میرے مخاطب دالبندین کے بیٹے بیٹیاں بھی ہیں چیچہ وطنی کے پتر اور دھی رانیاں بھی گولارچی کے ادی ادیاں بھی۔ صوابی کے بہن بھائی بھی گلگت بلتستان آزاد جموں کشمیر میں شہداء کے اہل خانہ بھی۔ہر شہر ایک مضبوط انفراسٹرکچر چاہتا ہے شہروں میں داخل ہوں تو قدیم زمانوں میں خوبصورت مضبوط دروازے ہوتے تھے ۔اب کراچی جیسے بڑے شہر میں بے ہنگم جھونپڑیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ہر شہر میں خیر مقدمی کچرے کے ڈھیر کرتے ہیں۔
پرنٹ اب معدوم ہو رہا ہے۔شوبز کا غلبہ ہے۔شہر صدیوں کے امین ہیں مگر ہم لمحوں میں جینا چاہتے ہیں۔ میں سب لکھنے پڑھنے والوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے شہر کا قرضہ چکائیں موضوعات یہ ہو سکتے ہیں:شہر کی درسگاہیں، ٹرانسپورٹ، معیشت، بازار، صحت، ہسپتال، ادبی تنظیمیں، تحقیقی ادارے، کارخانے، مقامی معدنیات، فصلیں، بلدیاتی ادارے، کھیل کے میدان، 'شہر کے نمائندے اور انتظامیہ ۔
اساتذہ طلبہ و طالبات بہت کچھ لکھتے ہیں۔ مقامی اخبارات بھی ہیں ۔سوشل میڈیا پر شہروں کے صفحے بھی۔ کالم نگار ہر شہر میں موجود ہیں۔ آپ کے قلم پر آپ کی سوچ پر سب سے زیادہ آپ کے شہر کا حق ہے اب تو آپ کے پاس سوشل میڈیا ہے اس پر یورپ امریکہ کے ان شہروں کی سہولتیں دیکھیں جہاں آپ کے جاننے والے رشتہ دار رہتے ہیں اور جہاں آپ خود بھی جانا چاہتے ہیں وہاں کیا سسٹم ہے جس سے زندگی متوازن رہتی ہے ،بحران پیدا نہیں ہوتے ،مہنگائی نہیں ہوتی، ایک دوسرے کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ ادارے آپس میں نہیں لڑتے، حدود عبور نہیں کرتے۔ اپنے شہر کی محرومیوں پر لکھیں یہ ’’تحریک استحکام پاکستان‘‘ ہو گی شہروں کی تعمیر اور تکمیل ہو گی۔ اسلام آباد اور پنڈی کی طرف ہی اگر آپ دیکھتے رہیں گے تو آپ کے شہر آپ سے روٹھ جائیں گے۔ شاعروں ادیبوں مضمون نگاروں محققین سب کی ذمہ داری ہے۔ میرے سامنے عبدالمومن نوید انصاری کی اہم جاندار تصنیف ’میرپور خاص ماضی سے حال تک‘ ہے۔ 366 صفحات میں عبدالمومن نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے میرپور خاص کا قرض اتار دیا ہے ہر پہلو سے ایک جامع کتاب۔ ہر شہر پر ایسی تحقیقی دستاویزیں سامنے آ سکتی ہیں ممکن ہے آئی بھی ہوں۔ رمضان کے مقدس دنوں میں ایسی ساعتیں آتی ہیں جب ہم اپنے آپ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔سوچیں اگر آپ تنہا یہ خدمت نہیں کر سکتے تو مل جل کر اپنے شہر کا ادھار چکائیں ۔اب تو پرنٹ کے ساتھ سوشل میڈیا بھی ہے۔ تحریر کے ساتھ تصاویر مناظر اور ویڈیوز اگر ہوں گی تو وہ آپ کے شہر کے حسن کو محفوظ کر لیں گی۔