پندرہ ماہ سے زیادہ مدت تک جاری رہنے والی بدترین اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کھنڈر بن جانے والے فلسطینی علاقے غزہ کی بحالی کیلئے 53ارب ڈالر مالیت کے مصر کے پیش کردہ منصوبے کو عرب ملکوں کے بعد 57رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے علاوہ چار اہم یورپی ملکوں کی حمایت کا حاصل ہوجانا اور اسکے مقابلے میں امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضے اور یہاں سے فلسطینی آبادی کو دوسرے ملکوں میں دھکیل کر غزہ کو تفریح گاہ بنادینے کے غیر منصفانہ منصوبے کا مسترد کردیا جانا، اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ عرب منصوبہ ہر اعتبار سے معقول، منصفانہ اور قابل عمل ہے۔ صدرٹرمپ کے منصوبے کے برعکس، عرب تجویز کا مقصد پیشہ ور فلسطینی ماہرین پر مشتمل عبوری انتظامیہ کے زیر اہتمام غزہ کے 24لاکھ باشندوں کو بے گھر کیے بغیر پانچ سال کے اندر غزہ کی تعمیر نو کرنا ہے ، جس کے بعد اہل غزہ انتخابات کے ذریعے اپنی منتخب حکومت قائم کرسکیں گے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’’یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کا حقیقت پسندانہ راستہ لگ رہا ہے اور اگر نافذ کر دیا جاتا ہے تو امید ہے کہ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے تباہ کن رہائشی حالات میں تیزی سے اور مستقل بہتری آئے گی۔ ہم تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی سنجیدہ کوششوں کو سراہتے ہیں، عرب ریاستوں کی جانب سے بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے کے مشترکہ طور پر تیار کرکے بھیجے گئے اہم اشاریے قابل تعریف ہیں۔‘‘دوسری جانب 57 مسلم ملکوں پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے جمعے کے روز سعودی عرب کے شہر جدہ میں ایک ہنگامی اجلاس میں اُس تجویز کو باضابطہ طور پر منظور کیا، تین دن قبل عرب لیگ نے قاہرہ میں ہونے والے ایک اجلاس میںجس کی توثیق کی تھی۔اسلامی ملکوں کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ او آئی سی عرب منصوبے کو منظور کرتا ہے، بین الاقوامی برادری، عالمی اور علاقائی فنڈنگ کے ادارے فوری طور پر ضروری مدد فراہم کریں۔او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اسلامی بلاک کو ایسی کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرنا چاہیے جس میں فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ انہوں نے صراحت کی کہ کسی بھی بیرونی طاقت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطینیوں پر اپنی مرضی مسلط کرے، اپنے مستقبل کا تعین خود کرنا ان کا حق ہے لہٰذا او آئی سی کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے کسی بھی مذموم ایجنڈے کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔اسحٰق ڈار نے پاکستان کی جانب سے جو سفارشات پیش کیںاُن میں جنگ بندی معاہدے کے تین مراحل پر مکمل اور فوری عمل درآمد یعنی جنگ بندی کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا اوربلا روک ٹوک انسانی رسائی اور تعمیر نو کا جامع منصوبہ شامل ہے۔اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے او آئی سی کی توثیق کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ انہیں اب امریکہ سمیت وسیع تر بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہونے کی امید ہے۔ اگلا قدم یورپی یونین، جاپان، روس، چین اور دیگر ممالک کے تعاون سے اسے ایک بین الاقوامی منصوبہ بنانا ہے۔ تاہم مصر کی تجویز پر اسرائیل کے اظہار سردمہری کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ واشنگٹن کی توقعات پر پورا نہیں اترتا جبکہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف نے اسے نیک نیتی پر مبنی منصوبہ قرار دیا ہے۔ بحالی غزہ کے عرب منصوبے کی بڑھتی ہوئی عالمی حمایت کے پیش نظر امریکہ اور اسرائیل کو بھی ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے اس کی مخالفت ترک کردینی چاہئے۔