’’گھمن گھیری‘‘ کی اصطلاح پلاک پنجابی ڈکشنری کے مطابق مصیبت دے وچ پھسن کو کہتے ہیں۔تضادستان اپنی تاریخ کے آغاز سے لیکر آج تک گھمن گھیری میں پھنسا ہوا ہے بظاہر یہ ایک جمہوری ملک ہے مگر تضاد یہ ہے کہ یہاں ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ سویلین بالادستی نے قائم ہونا ہے یا یہ ملک جرنیلوں، ججوں اور جغادری سویلین آمروں کے ماتحت ہی چلنا ہے۔ اس اہم ترین سوال کے ماضی میں دو جواب دیئے گئے ہیں ایک یہ کہ سویلین بالا دستی صرف اور صرف جدوجہد یا کسی بڑی بغاوت کے نتیجے میں حاصل ہو سکتی ہے دوسرا جواب تاریخ میں یہ ملتا ہےکہ سویلین بالادستی بغاوت کے نتیجے میں نہیں آتی کیونکہ طاقتور اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ ایسی کسی بھی جدوجہد کو آسانی سے کچل دیتے ہیں سویلین بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ نظام کے اندر رہیں اور آہستہ آہستہ اپنی کارکردگی اور دانش سے اپنی جگہ کو بڑھاتے جائیں ۔اگر آج کا سیاسی نظام دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ دوسرے سوال کے مطابق چل رہا ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی عناصر کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ جب وہ کارکردگی دکھائیں گے تو انکی جگہ Space بڑھتی جائے گی اور وہ ریاست میں موثر آواز بننے کے قابل ہو جائیں گے ۔سیاسی عناصر کی اس خوش فہمی کی اکثر حوصلہ شکنی جاری رہتی ہے لیکن فی الحال طاقتوروں اور حکومت میں شامل سیاسی عناصر کے پاس ملکر چلنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ،مشترکہ سیاسی مخالف تحریک انصاف کا بھاری ووٹ بینک انہیں مجبور کرتا ہے کہ وُہ اکٹھے چلیں سو چل رہے ہیں لیکن دونوں طرف دباؤ ہے، کھینچا تانی ہے اور دونوں دل ہی دل میں ایک دوسرے کی کمزوریوں پر نالاں رہتے ہیں۔
موجودہ صورتحال سے نکل کر مشہور امریکی تاریخ دان ول ڈیورانٹ (1885ء تا1981ء) کی طرف جاتے ہیں جس نے اپنی اہلیہ ارئیل ڈیورانٹ سے مل کر11جلدوں پر مشتمل The Story of Civilization لکھی۔ اس تصنیف نے دنیا میں دھوم مچادی اور اب اسکو پڑھے بغیر انسان کی 5 ہزار سالہ تہذیب اور تاریخ کو سمجھنا نا ممکن ہے بعدازاں ول ڈیورانٹ نے اپنی 11جلدوں پر لکھی تاریخ کو سموتے ہوئےایک چھوٹی سی کتاب The lessons of History لکھی ۔تاریخ سے جو سبق ڈیورانٹ نے سیکھے وہ یہ تھے کہ جب سے دنیا بنی ہے اس جہان میں دو اندرونی جنگیں مسلسل جاری ہیں یہ جنگیں آزادی اور مساوات کی ہیں۔ بدقسمتی سے جہاں آزادی ملتی ہے وہاں معاشی مساوات نہیں ہوتی اور اگر کہیں معاشی مساوات کا نظام قائم ہو بھی جائے تو پھر وہاں سے آزادی معدوم ہو جاتی ہے ۔ول ڈیورانٹ کے پیمانے کے مطابق تضادستان میں سب سے بڑی جنگ آزادی کی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ معاشی مساوات کے مسائل اسی طرح سے موجود ہیں جیسے پہلے دن سے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد بانی قائداعظم محمد علی جناح نے پارلیمانی جمہوری نظام اور سویلین بالادستی کے حوالے سے واضح پیغام دیا تھا مگر 1948 ء کی پاک بھارت جنگ نے ملک کی سمت بدل دی، اس نے بننا فلاحی جمہوری ریاست تھا مگر اپنے بچاؤ کی خاطر ایک سیکورٹی ریاست بن گیا۔ سیکورٹی اسٹیٹ میں سویلین بالادستی کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے کیونکہ ریاست اپنی سیکورٹی کے حوالے سے اس قدر حساس ہوتی ہے کہ اسے سویلینز سے یہ خوف اور اندیشہ رہتا ہے کہ وہ قومی سیکورٹی میں کوتاہی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اس لئے سیکورٹی ریاست زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیار اپنے پاس رکھتی ہے تاکہ ریاست کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھ سکے۔ مگر اس پالیسی کے نتیجے میں عوام لاتعلق ہو جاتے ہیں ،پارلیمان کو اختیارات نہیں ملتے ، عدالتیں یا ادارے یا پھر دونوں کی پسندیدہ آمرانہ شخصیات اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے سیاسی فیصلوں سے لوگوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔
حال ہی میں چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کی طرف سے عون عباس بپی اور سینیٹر اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر اسی تضاداتی گھمن گھیری کو ظاہر کررہے ہیں ۔اداروں کا نقطہ نظر ہے کہ سینیٹر اعجاز چوہدری 9 مئی کے مرکزی کرداروں میں سے ہیں جبکہ چیئرمین سینٹ کی رائے میں گرفتار سینیٹر کو ایوان میں بلانا چیئرمین کا پارلیمانی اختیار ہے۔ اس تضاد سے سول اور فوج کی سوچ میں فرق اور سویلین بالادستی کی راہ میں ان گنت رکاوٹوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ9مئی کے واقعے میں گرفتار کئی مردوزن چھوڑے جاچکے ہیں ایک گرفتار اور بیمار سینیٹر کی ایوان میں حاضری سے کیا فرق پڑ جائے گا ایوان کے بعد اس نے دوبارہ جیل ہی جانا ہے تو چاہے دکھاوے کیلئے ہی سہی کم از کم اتنی سویلین بالادستی تو مان لی جائے، ول ڈیورانٹ کی محبوبہ آزادی کو تھوڑا سا موقع تو دیا جائے۔
پچھلے چند سالوں سے تضادستان مصیبت اور سیاست کی جس گھمن گھیری میں پھنسا ہوا ہے اس میں بنیادی نکتہ بہرحال سویلین بالادستی اور ان پر عائد کردہ حدود کا ہے۔ تضادستان کو دنیا سے سیکھ کر چلنا چاہئے۔ دنیا میں ہر ملک کو اپنی سیکورٹی کی فکر ہوتی ہے امریکہ، برطانیہ جیسے جمہوری ممالک میں بھی دفاعی ادارے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سویلین بالادستی سے چلنے والے ممالک سیکورٹی ریاستوں کی نسبت زیادہ خوشحال، زیادہ آزاد اور زیادہ مطمئن ہیں۔ ہمیں بھی بتدریج اپنے اداروں کا کردار کم اور محدود کرنا چاہئے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ نیو کلیئر ریاست اور اسکے طاقتور اور بااختیار اداروں پر اغیار کی بری نظریں ہیں۔ یہ ادارے ریاست کے لئے ہیرے ہیں اور ہیروں کو چھپا کر رکھنا ہی انکی حفاظت کو یقینی بناتا ہے ۔ریاست کو ان ہیروں کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے وہ بھی پینٹاگون یا برطانوی اداروں کی طرح ریاست کو مشورے دیں لیکن فیصلے سویلین سے کرائیں کیونکہ دنیا میں یہی چلن کامیاب ہوا ہے۔
سیاسی گھمن گھیری کی مضبوط گانٹھوں کو کھولنے کے لئے اہل سیاست کا کردار اہم ہے اگر وہ اسی طرح غیرسنجیدگی سے ایوانوں کی کارروائی چلائیں گے اور مصالحت نہیں ہونے دینگے تو سویلین بالادستی کے خواب کی تعبیر سرے سے ممکن ہی نہیں ہوگی ۔اگر اس ملک کو جمہوری ٹریک پر چلانا ہے گھمن گھیریوں سے نکالنا ہے تو دل بڑے کرنے ہوں گے لچک پیدا کرنی ہوگی ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگنی ہوگی مستقبل میں جمہوری آزادیوں کی ٹھوس ضمانت دینا ہوگی ۔جب تک سیاستدان مصالحتی فارمولے تک نہیں پہنچتے نہ یہاں کوئی جمہوریت مستقل رہے گی اور نہ ہی سویلین بالادستی کی طرف سفر شروع ہو سکے گا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم سب اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ سکیں۔