تحریر: عشرت زاہد
مہمان سہیلیاں: اقراء، صبا
اسکارفس، دوپٹے: Hijabunisa Garments, Lahore
ملبوسات: مظہر علی کلیکشن
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
ہر سال ماہِ رمضان اپنی رحمتیں، برکتیں لیےآتا اور فیوض وبرکات، سعادتیں لُٹا کے، عیدالفطر کی صُورت ایک خُوب صُورت نعمت دے کے رخصت ہوجاتا ہے۔ ہم سب ہی کو رمضان کریم کی پُرنور ساعتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی شعوری کوشش کرنی چاہیے اور اُس کے لیے آغازِ ماہ سے قبل ہی پوری منصوبہ بندی ہونی چاہیے، تب ہی مہینوں کے اس سردار ماہ کے ہر ہر لمحے کو اجر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
جیسے فرائض کے ساتھ نوافل، زکٰوۃ کے ساتھ صدقات اور ترجیحاً نادار افراد کی مالی مدد، خصوصاً اپنےضرورت مند رشتےداروں، قرابت داروں، آس پڑوس اور زیرِنگرافراد کو راشن کی فراہمی، عید کے کپڑے، جوتے وغیرہ مہیا کرنا۔ نیز، اُٹھتے بیٹھتے ہر ہر پل زبان پراللہ کا ذکر جاری رکھنا۔
ماہِ صیام میں نہ صرف سحر و افطار، بلکہ اگر پہننے اوڑھنے کے معاملے میں بھی کچھ سادگی اپنالی جائے، تو محض ایک ماہ میں بھی کافی بچت ہوسکتی ہے اور پھر وہ بچایا گیا مال، کئی نیکیاں کمانے میں کام آ سکتا ہے کہ رمضان صرف عبادات کا مہینہ نہیں، یہ ذہنی و روحانی تقدّس وپاکیزگی کا منبع، روز مرّہ زندگی، طور طریقوں میں یک سر تبدیلی کا بھی پیام بر ہے۔
ملبوسات کی بات کی جائے، تو جہاں عام دِنوں میں نت نئےفیشنز، جدید تراش خراش اور چمک دمک کو اولیت و فوقیت حاصل ہوتی ہے، وہیں رمضان میں سادگی و نفاست، حیا و پاکیزگی کا رنگ کچھ زیادہ ہی گہرا، نمایاں ہوتا ہے اور پھر اِسی سبب عمومی طور پر شخصیات میں زیادہ حُسن و وقار، جاذبیت و نکہت بھی دیکھی جاتی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اِس سال تو ماہِ رمضان ویسے ہی بہت خوش گوار، خُوب صُورت سے موسم میں سایہ فگن ہوا ہے۔
سرما رُت کی رخصتی کے ساتھ موسمِ بہار کی آمد کا مژدۂ جاںفزا بھی سُنا گیا۔ صُبحیں کچھ بھیگی بھیگی سی ہیں، تو شامیں ہلکی خنک اورسُرمگیں سی۔ فضائیں ماہِ صیام کے فضائل و برکات سے تو خُوب مہکی مہکی ہیں ہی، پروردگار کی خاص مہربانی سے روزے بھی بڑے ٹھنڈے میٹھے سے ہیں اور… بلاشبہ اندروباہر کی ایسی حسین و دل نشین سی فضا کے لیے جسم و جاں کو طراوت دیتے،آنکھوں کو بہت بھلے لگنے والے رنگ و انداز ہی جچیں گے۔
جیسے کہ سفید، آسمانی، ہلکا گلابی، زیتونی سبز اور بیج رنگ کہ یہ نہ صرف موسم کی ہم آہنگی میں فرحت و تازگی کا احساس دیتے ہیں بلکہ رمضان کی پُرنور فضا سے بھی ہم آمیز سے محسوس ہوتے ہیں۔ اندازِ بناوٹ کی بات کی جائے، تو ڈھیلے ڈھالے، آرام دہ شلوار قمیصیں، دوپٹے، عبایا، اسکارفس زیادہ پہنے جارہے ہیں۔
یوں بھی ایک بار پھر لمبی قمیصوں کے ساتھ پلازو، اسٹریٹ ٹراؤزرز یا پلین نرم سوتی شلواریں ایک بار پھر فیشن میں اِن ہیں، تو نفیس ونازک کڑھت سے آراستہ ملبوسات بھی آج کل خواتین کی اولین ترجیح ہیں۔ نیز، دھاگا کاری، چکن کاری، باریک لیسز اور ہلکی بیلوں سے تیار شدہ ملبوسات کے ساتھ کڑھائی والے دوپٹے بہت پسندکیے جا رہے ہیں، خصوصاً بارڈرز پر کڑھت کا رجحان تو بہت بڑھ گیا ہے۔
رمضان المبارک میں یوں بھی ملبوسات کے ساتھ دوپٹوں، چادروں کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ روز مرّہ زندگی میں جو خواتین اِس حوالے سے کچھ زیادہ تکلّف نہیں بھی کرتیں، وہ بھی اِس مہینے میں ہر طرح کے پہناووں کے ساتھ بڑے بڑے دوپٹے، چادریں اوڑھنے یا عبایا، اسکارفس سے مزیّن ہونے کو اعزاز و افتخار سمجھتی ہیں۔ تب ہی بیش تر افطار پارٹیوں، چھوٹی موٹی گھریلو تقریبات، دروس کی محافل یا تراویح کے اجتماعات میں اِن ہی رنگ و اندازسے مرصع نظرآتی ہیں۔
پھر ہلکی پُھلکی نازک جیولری، تیز خوشبویات، پرفیومز کی جگہ روایتی عطریات کی بھینی بھینی مہک زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ بہرکیف، ہم نے ایک بار پھر اپنی بزم، ماہِ کریم ہی کی مناسبت سے آراستہ کر رکھی ہے۔ ذرا دیکھیے، سیاہ، آتشی گلابی، سُرخ اور عنّابی رنگوں کے سادہ سادہ پہناووں کے ساتھ رنگا رنگ اسٹرائپڈ، پھول دار، پلین، پرنٹڈ اور چیک دار دوپٹوں، اسکارفس کی ہم آہنگی، پورے ماحول سی کتنی خوب صورت مطابقت پیدا کر رہی ہے، جب کہ سیاہ اورسُرمئی رنگوں کے پلین عبایا بھی عُمدہ انتخاب ہیں۔
ماہِ صیام کے فضائل و برکات اِس قدرہیں کہ اللہ پاک نے اِس کا اجراپنے ذمّے لے لیا ہے، خاص طور پرکُل امتِ مسلمہ میں جو یک جائی و یک رنگی اِس ماہ دکھائی دیتی ہے، وہ پھر پورا سال نظرنہیں آتی، تو یوں بھی ایسے ماحول میں نیکیاں جمع کرنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے، لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِن رحمتوں، برکتوں کا نزول جاری وساری رہے، یہ بہار ہمیں سال کے 365 دن ہی فیض یاب کرتی رہے، جو درحقیقت رمضان کا اصل مقصد وپیغام بھی ہے، تو پھر تقدّس وسادگی، جسمانی، ذہنی و روحانی پاکیزگی کے اِس رنگ کو کسی طور ہلکا نہ ہونے دیں۔ بلکہ اس خُوب صُورت تبدیلی کو اپنے سب انداز واطوار، کردار و اخلاق میں ایسے بسا لیں کہ عکس پورے معاشرے سے جھلکتا محسوس ہو۔
یہ تربیت کا مہینہ ہے اور اصل تربیت وہی ہوتی ہے، جو گُھٹی میں پڑجائے، جس کے اثرات تادیر رہیں۔ اور اگر اِس ٹریننگ کےنتائج سال کے باقی گیارہ ماہ پر بھی منتج ہوجاتے ہیں، تویقین کریں، اگلے برس کی چھب ڈھب، لُطف و سرور ہی الگ ہوگا۔