تحریر: عالیہ شمیم
مہمان: سنیبل عروج
عبایا، اسکارفس: Hijabunisa Garments, Lahore
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
حضور اکرمﷺ ماہِ رجب سے نہ صرف رمضان المبارک کا انتظار فرماتے، بلکہ بارگاہِ خداوندی میں دستِ دُعا ہوتے کہ ’’اےاللہ! ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا دیجیے۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک، خوابِ غفلت میں پڑی امتِ مسلمہ کی بے داری کے لیے ایک نادر و شان دار موقع ہے، جو سال بھرمیں صرف ایک ہی مرتبہ میسّر آتا ہے۔
اِسی ماہ ایمان وایقان کی بہار پورے جوبن پر ہوتی ہے۔ گناہوں کی سیاہی سے زنگ آلود دِلوں کی صفائی و صیقل کا بھرپور سامان کیا جاتا ہے، تو اِسی ماہ جہنم کے دروازے بند کیے، جنّت کے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ’’اے خیر کے طلب گار، آگے بڑھ اور اے شر کے چاہنے والے، پیچھے ہٹ‘‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
بےشک، روزہ رب اور بندے کے درمیان ایک مقدّس، قلبی و روحانی تعلق کی علامت ہے اور اسلامی عبادات کا بنیادی محرّک ہی رضائے الہی ہے کہ رب کی رضا کے بناء عبادات کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی وہ قبولیت کےدرجے پر فائز ہوں گی۔ روزے کی بات کریں، تو اِس کا اصل مقصد محض بھوکا پیاسا رکھنا نہیں، بلکہ بندے میں تقویٰ کی صفت، دل میں اللہ کا خوف و خشیت پیدا کرنا ہے۔ صحیح معنوں میں یہی مہینہ اطاعت و فرماں برداری، عبادت و بندگی کا موسمِ بہار ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندوں کے شب و روز خُوب مزیّن وآراستہ فرماتا ہے۔
ویسے تو پالنہار کی اطاعت گزاری ہمہ وقت مطلوب صفت ہے، لیکن ماہِ صیام میں اِس کی قدروقیمت اور حُسن میں کئی گُنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اپنی سوچ، نفس، ارادے کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنا، اُس کے تابع کرنا ہی تقویٰ ہے اور تقویٰ کا حصول تب ہی ممکن ہے کہ جب وہ ہمارے ہر ایک قول و عمل سے مترشّح ہو۔
یہ درست ہے کہ ماہِ مبارک میں قلوب و اذہان کی صفائی بہت ضروری ہے کہ اگر دل ودماغ میں کینہ، حسد، بغض، عداوت کا کھوٹ، میل جمع ہو، تو وجود پرماہِ مبارک کے انوار کی تجلّی ممکن نہیں، لیکن باطن کے ساتھ ظاہر کی تبدیلی و درستی بھی لازم ہے۔ سو، ہرایک کی یہ دُعا ہونی چاہیے کہ ’’اے اللہ! ہم تیرے عاصی، گناہ گار بندے، تیری رضا وخوش نودی کے لیےاپنا تن من دھن سب وارنے کو تیار ہیں۔ تُو ہمیں جیسا دیکھنا چاہتا ہے، ہمیں ویسا ہی نظر آنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘ اور پھر اپنے کردار وعمل سے ثابت کیا جائے کہ ہم باغی، ناخلف نہیں، اپنے پروردگار کے تابع فرمان ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ عزّت و غیرت، شرم و حیا اُمّتِ مسلمہ کا شعار اور عِصمت و عفّت کی حفاظت، حجاب و پردہ مسلمان خواتین کا فخروامتیاز ہے۔
نیز، دینِ اسلام میں حیاداری کا حُکم صرف عورت ہی کے لیے نہیں، مرد کے لیے بھی ہے اور یہ جو ماہِ صیام میں یک سر ساری فضا، پورے ماحول میں ایک بہت ہی خوش گوار سی تبدیلی نظر آتی ہے، درحقیقت ہماری تابع فرمانی ہی کی مظہر ہے۔
خصوصاً اپنے زنگ آلود دِلوں کی صفائی کے ساتھ، حُکمِ ربی کی بجا آوری ہی میں بنتِ حوا کے پہناووں میں ایک بہت واضح تبدیلی محسوس ہوتی ہے اور تب ہی جا بجا نہ صرف مکمل پہناووں، اوڑھنیوں، چادروں میں ڈھکی چُھپی لڑکیاں بالیاں، خواتین دیکھی جاتی ہیں، بلکہ ڈھیلے ڈھالے عبایا، اسکارفس سے مزیّن، فرمانِ الٰہی کی تکمیل سے سرشار، آسودہ حال، بِناتِ مسلم کی سج دھج سے پورا مسلمان معاشرہ بھی جیسے نکھر سنور سا جاتا ہے۔
وہ کیا ہے کہ ؎ مَیں حُکمِ رب پہ نازاں ہوں، مجھے مسرور رہنے دو … رَدا ہے یہ تحفّظ کی، مجھے مستور رہنے دو … مثالِ سیپ میں موتی مجھے ربّ قیمتی سمجھے … مجھے اپنی قدر افزائی پہ مغرور رہنے دو … زمانے کی نظر گہنا نہ دے پاکیزگی میری… حیا کے لعل و گہر سے مجھے پُرنور رہنے دو… نہیں محتاج میری ذات مصنوعی سہاروں کی…حیا کی پاس داری سے مثالِ حور رہنے دو… مِرے سر پر جو چادر ہے، مِرے ایماں کا سایہ…اِسی سائے کی ٹھنڈک سے ہر اِک غم دُور رہنے دو۔
ماہِ صیام، نیکیوں کی برکھا، بہار کا موسم ہے، تو اس کی آمد کے ساتھ ہی نت نئے اسکارفس، عبایا کی بھی جیسے بہار سی چھا جاتی ہے اور یہ یقیناً اِسی لیے ہے کہ حجاب، پردہ ربِ کریم کا حُکم ہی نہیں، نسوانیت کا تشخّص، حیا و پاکیزگی کی علامت، ایک مسلمان عورت کا فخروغرور، امتیاز وانفرادیت بھی ہے۔
یہ صنفِ نازک کو محض ممتاز ہی نہیں کرتا، سیپ میں چُھپے موتی کی طرح قدر و منزلت بھی عطا کرتا ہے۔ بااعتماد و باوقار بناتا ہے، تو مشرقی تہذیب وثقافت کو بھی خُوب اجاگر کرتاہے۔ شرم وحیا نصف ایمان ہے اور حجاب، شرم وحیا کا استعارہ۔
سو، اگر ہمیں ماہِ سعید کا انتظام و انصرام، احترام و اہتمام پورے شعور و آگہی کے ساتھ کرنا ہے، تو اِس کے سب لوازمات کا بھی پورا پورا خیال رکھنا چاہیے۔
اِسی خیال کے تحت آج ہم نےاپنی یہ ’’رمضان المبارک اسپیشل بزم‘‘ کچھ بہت ہی حسین و دل کش سے عبایا، اسکارفس سے مزیّن کر ڈالی ہے۔ ذرا دیکھیے تو چاکلیٹ براؤن رنگ پرنٹڈ عبایا کے ساتھ آف وائٹ کا کنٹراسٹ اور عنّابی رنگ اسکارف کا امتزاج کیسا پاکیزہ و پوتّر سا احساس دے رہا ہے۔
سیاہ و سفید کے سدا بہار امتزاج میں ایک انتہائی دیدہ زیب انداز ہے، توپلین باٹل گرین رنگ عبایا کے ساتھ ہم رنگ اسکارف کی نکہت و ندرت کے بھی کیا ہی کہنے۔ بلیک اینڈ وائٹ ہی کے امتزاج میں، تقدّس وپاکیزگی کی علامت، سفید رنگ اسکارف کا حُسن و جاذبیت کمال ہے، تو سفید و گلابی رنگوں کی ہم آمیزی میں پرنٹڈ عبایا کے انتخاب کا بھی جواب نہیں، جب کہ عنّابی رنگ عبایا کے ساتھ، سفید اسکارف کا تال میل تو گویا پوری بزم ہی کو بہت پُر وقار و پُرنور کیے دے رہا ہے۔