• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رابعہ فاطمہ

رمضان المبارک محض جسمانی عبادات، ذہنی و روحانی ثمرات ہی کا مہینہ نہیں، یہ سماجی و معاشی اصلاح کا بھی ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں زکوٰۃ و صدقات کو خیرات کے بجائے ایک مکمل مالیاتی نظام کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم، غربت کا خاتمہ، اور معاشی استحکام یقینی بنانا ہے۔ 

آج کی دنیا جہاں مالیاتی بحرانوں، منہگائی اور اقتصادی عدم استحکام کی شکار ہے، وہاں اسلامی معیشت کا یہ ماڈل ایک عملی حل فراہم کرسکتا ہے، جو پائے دار ترقی اور فلاحی ریاست کے قیام میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ زکوٰۃ، اسلام کا ایک اہم رکن ہے، قرآنِ کریم میں ایمان کے بعد نماز اور اُس کےساتھ جابجا زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانا کے ہیں اور یہ مالی عبادت ہے۔ 

واضح رہے، یہ محض اداروں کی کفالت، دولت کی تقسیم کا ایک موزوں ترین عمل ہی نہیں، بلکہ ایسی عبادت ہے، جو قلب و رُوح کا میل کچیل بھی صاف کرتی۔ نیز، زکوٰۃ اللہ کی عطا کردہ بے حساب نعمتوں کے اعتراف اور اُس کا شُکر بجا لانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ زکوٰۃ سے متعلق قرآن وحدیث میں کثرت اور وضاحت کے ساتھ تمام ضروری احکام و ہدایات موجود ہیں اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر بہت سخت وعیدیں سُنائی گئی ہیں اور یہ سب اہتمام ہم جیسے ایمان والوں کے لیے کیا گیا ہے، جو نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اسلامی احکامات سے دُور ہوجاتے ہیں۔ 

دراصل، زکوٰۃ مال کا وہ حصّہ ہے، جس کا ادا کرنا فرض ہے۔ تاہم، بہت سے مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت سے غافل، جب کہ بہت سے زکوٰۃ سے بچنے کے لیےحیلوں، بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ کچھ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، مگرحساب کتاب کیے بغیر محض اندازےیا ذوق کے مطابق کچھ مال زکوٰۃ کے نام پرنکال دیتے ہیں، حالاں کہ یہ بھی بڑی کوتاہی ہے۔

اسلامی معیشت اور دولت کی منصفانہ تقسیم: اسلامی اقتصادی ماڈل کا بنیادی اصول، دولت کی منصفانہ تقسیم اور کم زور طبقے کی مدد پر مبنی ہے۔ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ دولت کا ارتکاز صرف چند افراد تک محدود نہ رہے، بلکہ یہ پورے سماج میں گردش کرے تاکہ تمام افراد کو بنیادی ضروریات میسّر آسکیں۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’جو مال بھی ہاتھ لگادے اللہ اپنے رسول ﷺ کے بستیوں والوں سے، تو وہ ہے، اللہ کے لیے، رسول ﷺ کے لیے، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں ہی کے درمیان گردش میں نہ رہے۔ اور جو کچھ رسول ﷺ تم لوگوں کو دے دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے روک دیں، اس سے رُک جائو۔ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ بے شک، اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘(سورۃ الحشر،7)۔ 

پس، یہی اصول اسلامی معیشت کی بنیاد ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس، دولت کی ایک محدود طبقے میں اجارہ داری کی مخالفت ہے اور سماج میں مساوی مواقع کی فراہمی پر زور دیتا ہے۔

زکوٰۃ، ایک جامع معاشی اصلاحی نظام: زکوٰۃ اسلامی مالیاتی نظام میں ایک ایسا ذریعہ ہے، جو دولت کی غیر متناسب تقسیم روک کے، کم زور طبقات کی مدد کے لیے ایک مؤثر طریقہ کار مہیّا کرتا ہے۔ جب صاحبانِ نصاب افراد زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، تو دولت سماج کے مختلف طبقات میں گردش کرنے لگتی ہے، جس سے نہ صرف غربت میں کمی آتی ہے، بلکہ خریداری کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور معیشت کو استحکام ملتا ہے۔ 

تاریخ میں زکوٰۃ کے نظام کے کئی شان دار عملی نمونے موجود ہیں۔ حضرت عُمر فاروقؓ اور حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ کے دَور میں زکوٰۃ کا نظام اتنا مضبوط تھا کہ لینے والے کم، اور دینے والے زیادہ ہوگئے تھے۔ اگر آج مسلم ممالک زکوٰۃ کے اس ماڈل کو منظم انداز میں نافذ کریں، تو لاکھوں افراد کو خودکفیل کرکے سماجی و معاشی استحکام پیدا کیا جاسکتا ہے۔

زکوٰۃ اور کاروباری سرگرمیوں میں توازن: معیشت کی بحالی میں زکوٰۃ کا کردار اُس وقت مزید واضح ہوتا ہے، جب اس کے اثرات تجارتی اورپیداواری سرگرمیوں پر پڑتے ہیں۔ زکوٰۃ کی ادائی کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کی مالی مدد کی جاتی ہے، جس سے اُن کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں طلب بڑھتی ہے اور کاروباری سرگرمیوں میں استحکام آتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، اگر زکوٰۃ کے نظام کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ تربیت کے منصوبوں میں استعمال کیا جائے، تو یہ نہ صرف فلاحی امداد فراہم کرے گا، بلکہ محتاج افراد کو مستقل بنیادوں پر مالی طور پر خودمختار بنانے میں بھی معاونت حاصل ہوگی۔

زکوٰۃ اور غربت کا خاتمہ: زکوٰۃ کا ایک بنیادی مقصد معاشرتی ناہم واریوں کو کم کرنا اور دولت کو گردش میں لانا ہے۔ اگر اسلامی ممالک زکوٰۃ کو جدید حکمتِ عملی کے تحت بروئے کار لائیں، تو یہ وسیع پیمانے پر غربت کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں، جہاں زکوٰۃ کی رقم منظم طریقے سے خرچ کی گئی اور اس کے نتیجے میں معاشرتی ناہم واریاں ختم ہوگئیں۔ زکوٰۃ کے ذریعے بنیادی سہولتوں، جیسے صحت، تعلیم، اور رہائش، کو ترقی دی جاسکتی ہے، جس سے ایک خوش حال اور مستحکم سماج کا قیام ممکن ہے۔

زکوٰۃ کے سماجی و اخلاقی اثرات : زکوٰۃ و صدقات کا نظام نہ صرف معیشت، بلکہ سماجی سطح پر بھی مثبت تبدیلیاں لانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، تو معاشرتی ناہم واریوں میں کمی آتی ہے اور طبقاتی کشمکش کم ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے، جو باہمی ہم دردی، اخوت و یک جہتی پر مبنی ہوتا ہے۔ 

رمضان المبارک میں زکوٰۃ و صدقات کی ادائی اسی سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے، جہاں ہر فرد دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں زکوٰۃ کو صحت، تعلیم، اور فلاحی منصوبوں میں استعمال کرنے کی مثالیں موجود ہیں اور اگر آج بھی اسی ماڈل کو اپنایا جائے، تو مسلم معاشروں میں ایک خوش حال اور خودکفیل اقتصادی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔

جدید معاشی تقاضوں سے ہم آہنگی کی ضرورت: معاشی بحرانوں کے حل کے لیے اسلامی معیشت کے اصولوں کو جدید تقاضوں کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ زکوٰۃ کا نظام ریاستی سطح پر مزید مؤثر بنایا جائے، تاکہ یہ محض انفرادی خیرات تک محدود نہ رہے، بلکہ ایک منظّم مالیاتی پالیسی کے تحت غربت کےخاتمے، روزگار کے مواقع اور تعلیمی و پیشہ ورانہ ترقی کے منصوبوں میں استعمال ہو۔

جدید اسلامی ریاستیں،اہم اقدامات: جدید اسلامی ریاستوں کو درج ذیل اقدامات پر فوری غور اور عمل کرنا چاہیے۔ زکوٰۃ فنڈز کو مرکزی مالیاتی پالیسی کا حصّہ بناناجائے، تاکہ اس کے اثرات وسیع تر ہوں۔ زکوٰۃ کو جدید معاشی شعبوں، جیسے زراعت، صنعت، اور ٹیکنالوجی میں لگانے کی منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ 

زکوٰۃ فنڈز چھوٹے کاروباروں کی ترقی، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع، اور تعلیمی وظائف پر خرچ ہونے چاہئیں۔ ایک ایسا منظّم ڈیجیٹل نظام تشکیل دیاجائے، جو زکوٰۃ کی شفّاف تقسیم یقینی بنائے اور مستحق افراد تک اس کے فوائد پہنچائے۔

اسلامی ماڈل کی عملی کام یابی: زکوٰۃ و صدقات پر مبنی اسلامی ماڈل جدید معیشت کے مسائل کا ایک عملی اور دیرپا حل فراہم کرتا ہے۔ یہ محض ایک مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ ایک ایسا سماجی و اقتصادی نظام ہے، جو غربت کے خاتمے، دولت کی منصفانہ تقسیم اور معیشت کے فروغ کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اگر اسلامی ممالک زکوٰۃ کے نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نافذ کردیں، تو ایک خودکفیل، متوازن، اور فلاحی معیشت کا قیام ممکن ہوسکتا ہے، جو نہ صرف دنیاوی ترقی بلکہ آخرت میں بھی کام یابی کا ذریعہ بن سکتا ہے اور رمضان المبارک ہمیں اس نظام کو مؤثر طریقے سے اپنانے اور سماجی و اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

قرآنِ پاک اور احادیث میں زکوٰۃ کی ادائی میں غفلت برتنے والوں کے لیے کئی وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں، جن میں دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بہ کثرت کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ:’’اے اہلِ ایمان! یقیناً بہت سے علماء اور درویش ہڑپ کرتے ہیں لوگوں کے مال، باطل طریقے سے، اور روکتے ہیں، لوگوں کو اللہ کے راستے سے، اور وہ لوگ جو جمع کرتے ہیں اپنے پاس سونا اور چاندی اور خرچ نہیں کرتے، اس کو اللہ کی راہ میں، تو ان کو بشارت دے دیجیے درد ناک عذاب کی۔ 

جس دن اُن (سونے اور چاندی) کو تپایا جائے گا ،جہنّم کی آگ میں اور پھر داغا جائے گا، اُن سے اُن کی پیشانیوں، اُن کے پہلوؤں اور اُن کی پیٹھوں کو (اور ساتھ کہا جائے گا) یہ ہے، جو تم نے اپنے لیے اکٹّھا کیا تھا، تو اب چکھو مزہ اس کا جو کچھ تم جمع کرتے تھے۔ (سورۃ التوبہ، آیات 34.35)ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کر اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (سورئہ آلِ عمران، آیت180)۔