نادیہ سیف
صد شُکر کہ ماہِ صیام ہم پر سایہ فگن ہے۔ یہ ماہِ مبارک نہ صرف ہماری ذہنی، جسمانی و روحانی تربیت کرتا ہے، بلکہ ہمارے دِلوں میں بےبس و لاچار اور فاقہ کش افراد کی مدد کا جذبہ بھی بےدارکرتا ہے۔ تاہم، اگر ہم اِن عبادات اور نیک اعمال کو ماہِ رمضان ہی تک محدود رکھنےکی بجائے اپنے طرزِ زندگی کا مستقل حصّہ بنانے کی کوشش کریں، تو ہماری دُنیا و آخرت دونوں ہی سنور سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ماہِ رمضان میں قرآن سے مضبوط تعلق ہمیں اپنی کردارسازی اور خُود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے اور اسی طرح ماہِ مبارک کے دیگر روحانی پہلو بھی ہماری شخصیت کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ہمیں رمضان المبارک کو محض عبادت کا مہینہ سمجھنے کی بجائے عملی تربیت کا مہینہ تصوّر کرنا چاہیے، جس میں ہماری روحانی، اخلاقی اور جسمانی اصلاح ہوتی ہے۔ اِسی طرح اس ماہ کی جانے والی عبادات کا مقصد صرف اجر کمانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہمیں اِن تمام نیک اعمال کو اپنی پوری زندگی کا حصّہ بنانے کی نیّت کرنی چاہیے۔
اس مقصد کے لیے رمضان میں نماز کی پابندی، تلاوت، اذکار اور تہجّد کا جو معمول بنتا ہے، اُسے سال بَھر برقرار رکھنے کے لیے ایک قابلِ عمل پلان بنائیں۔ نیز، رمضان میں زندگی کے معمولات اور کھانے پینے کی عادات میں پیدا ہونے والے نظم و ضبط اور اعتدال کی عادت کو ماہِ صیام کے بعد بھی برقراررکھیں، تاکہ صحت مند جسم کے ساتھ ایک مضبوط روحانی زندگی کا سفر جاری رہے۔
رمضان المبارک ہمیں دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے، صبروایثار کی روش اختیار کرنے کا درس دیتا ہے، تواِن صفات کو مستقل مزاجی کے ساتھ زندگی کاحصّہ بنانے کی کوشش، ہماری کردار سازی اور خُود احتسابی کےعمل کے لیے بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے کہ اگر ہم واقعتاً اپنی کردار سازی چاہتے ہیں، تو رمضان کی مشقوں کو زندگی بَھر جاری رکھنا چاہیے۔ ماہِ صیام میں گناہوں سے دُوری آسان لگتی ہے، لیکن معصیت سے بچنےکا یہ احساس باقی گیارہ مہینوں میں کیسے برقرار رکھا جائے، یہ بات بھی اہم ہے۔
یاد رہے، حصولِ تقویٰ کے ساتھ گناہوں سے اجتناب صرف قرآن سے اپنا تعلق مضبوط کرنے ہی سے ممکن ہے۔ لہٰذا، رمضان المبارک میں قرآنِ پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کے ساتھ اس کی تفہیم کی بھی کوشش کریں۔ ہر ہر لفظ پر غوروفکر کریں اور اِسے سمجھنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کریں۔ علاوہ ازیں، ایک ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ جو رمضان کےمہینے میں حاصل کردہ روحانی طاقت کو سال کے باقی مہینوں میں بھی برقرار رکھے، جیسا کہ مہینے میں ایک بار نفلی روزے رکھنا، قرآن پاک کی تلاوت اور صدقہ و خیرات وغیرہ کو معمول بنانا۔
رمضان المبارک میں شیطان قید ہوتا ہے، مطلب اگراِس ماہ بھی شیطانی خیالات، منفی عادات ہمیں نیک کاموں، عبادات سے روکتی ہیں، تو اس کا سبب ہماری اپنی کم زوریاں ہیں کہ ماہِ صیام تو ہمیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سو، اِس مہینے اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنی سب خامیوں کو پہچانیں، جیسا کہ جلد مشتعل ہوجانا، حسد کرنا، وقت کا زیاں اور لایعنی گفتگو وغیرہ۔
نیز، ان بُری عادات پر قابو پانے کے لیےاس ماہ کو بطور تربیتی کورس استعمال کریں۔ خُود احتسابی کی عادت اپناتے ہوئے ہردن کے اختتام پر اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس کا گزشتہ روز سے موازنہ کریں کہ کیا آج کا دن گزشتہ روز سے بہتر تھا اور کیا آج مَیں نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا؟
روزے کی حالت میں ہم اپنی بُھوک، پیاس اور جذبات پر قابو رکھ سکتے ہیں، تو ہمیں بعد از رمضان بھی ناپسندیدہ عادات پر قابو پانے کی مشق کرنی چاہیے، جب کہ ماہِ صیام میں بے جا اسکرولنگ، غیرضروری مصروفیات ترک کر کے اپنے وقت کو بامقصد بنائیں۔ خُود کو مثبت، تعمیری کاموں میں مشغول رکھنے کی کوشش کریں، جیسا کہ حصولِ علم، دوسروں کی مدد یا اپنےاہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنا۔
علاوہ ازیں، اس مبارک مہینے میں صلۂ رحمی کا مظاہرہ کریں۔ پُرانی رنجشیں ختم کردیں، دوسروں کو معاف کریں اور مثبت رویّے اپنانے کی مشق کریں۔ اصلاحِ نفس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، وہ دُعائیں پڑھنے کا اہتمام کریں کہ جو بالخصوص نیکیوں کی توفیق اور بُرائیوں سے بچنے کی طلب سے متعلق ہوں۔
اپنے اخلاق کی بہتری کے لیے روزانہ ایک اچّھی عادت اپنانے کی کوشش کریں، جیسا کہ دوسروں سے مُسکرا کرملنا، نرم لہجے میں گفتگو کرنا اور پریشان حال افراد کی مدد کرنا۔ ’’ایک روزہ، ایک نیکی‘‘ کی یہ شعوری کوشش ماہِ رمضان کے بعد بھی مفید ثابت ہوگی۔ رمضان کے بعد بھی خُود احتسابی، ضبطِ نفس اور نیکی کی کوشش جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنائیں تاکہ رمضان کی برکات مستقلاً زندگی کا حصّہ بن جائیں۔
جس طرح ہم رمضان المبارک میں ظاہری پاکیزگی (وضو، غسل اور طہارت وغیرہ) کا خیال رکھتے ہیں، اسی طرح باطنی صفائی (کینہ، حسد، غرور، بغض سے دُوری) بھی ضروری ہے۔ یہ بابرکت مہینہ درس دیتا ہے کہ اپنے دل کو صاف کریں، دوسروں کی خوشیوں پر حسد کرنے کی بجائے اُن کے لیے دُعا کریں۔ اپنے دل میں کسی کے لیے بھی نفرت نہ پالیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو رحم نہیں کرتا، اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ تو رمضان المبارک دوسروں کو سچّے دل سے معاف کرکے اپنے دل کو ہلکا کرنے کا بہترین موقع ہے۔ ہمارے بہت سے رشتےصرف غلط فہمیوں کی بنا پرختم ہوجاتے ہیں۔ سو، اِس رمضان دِلوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔
تطہیرِ قلب کے لیے زبان کی حفاظت بھی ضروری ہے، تو رمضان میں خاص طور پر زبان کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں تاکہ دِل پر میل نہ جمے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رمضان المبارک کو ہمارے لیے اس قدر بابرکت بنا دے کہ ہم عبادات کے اہتمام کے ساتھ نیک اعمال کے ذریعے اصلاحِ نفس بھی کرسکیں۔ (آمین)