ایسا دکھائی دیتا ہے کہ توہین آمیز تبصروں کے شور وغل اور غیر فعالیت کے نرغے میں آیا ہوا پاکستان مسلسل زوال کی گھاٹی اتر رہا ہے۔ بہت جلد وہ مرحلہ آیا چاہتا ہے جہاں تمام تاب و تواں دم توڑ دیتی ہے اور بحالی کا امکان جاتا رہتا ہے، لیکن اس بات کا مطلق احساس دکھائی نہیں دیتا کہ معاملات کے ہاتھ سے نکل جانے سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ ان منڈلاتے ہوئے خطرات کی بھیانک یاد دہانی ہے۔ اس گھناؤنے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ہماری ناکامیوں اور اس بحران کے تدارک کیلئے درکار اقدامات کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ خود احتسابی، اپنے گریبان میں جھانکنے، مکالمہ شروع کرنے اور اتفاق اور ہم آہنگی پیدا کرنے، مشکل فیصلے کرنے اور ابھرنے والی اختلافی آوازوں کے درمیان پر امن راستہ تلاش کرنے اور باغیانہ روش کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کا وقت ہے۔ اس کیلئے احساس محرومی کا زخم بھرنے اور انھیں اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اہمیت رکھتے ہیں۔
اگرچہ دہشت گردی کے ذمہ داروں سے لڑنا ریاستی حکام کی ذمہ داری ہے، لیکن اس سے بھی اہم اسکی وجوہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ ایسا سیاسی مخالفین کو مسلسل مورد الزام ٹھہرانے سے نہیں بلکہ ان پالیسیوں کا جائزہ لینے سے ہو گا جو لوگوں میں قطبی رویوں کا باعث بن رہی ہیں، اور کچھ لوگوں کو بولے جانے والے لفظ کی طاقت کی بجائے بندوق کی طاقت کا سہارا لینے پر مجبور کر رہی ہیں۔ اس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے ، اور سیاسی اختلافات کے دائرے سے بالاتر ہو کر ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ذاتی مفاد کی بیان بازی سے آگے بڑھ کر مفاہمت کا ماحول پیدا کرنا ہو گا۔
یہ افسوسناک ہو سکتا ہے، لیکن قومی منظر نامہ اس وقت سمجھدار آوازوں کی کمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پرانے راگ الاپنا کام نہیں دے گا۔ اس وقت وہ لوگ حکمران ہیں جو ریاستی مشینری کو اپوزیشن کو دبانے کیلئے استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مزید تقسیم کے خطرے سے بالکل بے خبر ہیں۔پے در پے شروع کیے جانے والے مختلف اقدامات کا ہدف ایک سیاسی حریف کو دبانا ہے۔ لیکن ماضی میں اس پالیسی نے کام نہیں دیا تھا، یہ منفی سرگرمی مستقبل میں بھی بے سود رہے گی۔ اس لیے عوام کو اکٹھا کرنے کیلئے سوچ اور عمل کی تبدیلی درکار ہے۔
یہ اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت ہے۔ مجھے گیارہ اگست 1947کو قائد اعظم محمد علی جناح کے وہ الفاظ اپنے جاندار معنیٰ کے ساتھ یاد آ رہے ہیں جب انھوںنے فرمایا تھا کہ اُن کے پیش نظر کس قسم کا پاکستان ہے۔ تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کو مساوات اور یگانگت کا درس دینے والے بابائے قوم کے الفاظ کے معنی اور اہمیت آج بھی برقرار ہے ’’اگر تم اپنا ماضی تبدیل کرلو اور اس جذبے کے ساتھ مل کر کام کرو کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم میں سے ہر ایک، چاہے اس کا تعلق کسی بھی کمیونٹی سے ہو، چاہے اس کا تمہارے ساتھ جو بھی تعلق ہو، چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل اور عقیدے سے تعلق رکھتا ہو، وہ بہر صورت اس ریاست کا شہری ہے، اور مساوی حقوق، مراعات اور ذمہ داریاں رکھتا ہے، تو پھر آپ کی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہو گی ۔‘‘
عوام کے درمیان عدم مساوات اور ناانصافی ،عدم اعتماد اور تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک انہی مسائل کا شکا ر ہے۔ اس کا اظہار اس تقسیم سے ہوتا ہے جو استحقاق یافتہ اشرافیہ کو عام افراد سے الگ کرتی ہے جو وقت اور حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اس تفریق کو پُر کرنے اور ریاست کو قائد کے مساوات کے تصور کے مطابق قائم کرنے کیلئے کبھی دل جمعی سے کوشش نہیں کی گئی۔ اس کی بجائے ایک مسخ شدہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ پسماندہ اور محروم عوام وہ مخلوق ہیں جن کی کسی کو پروا نہیں۔ وہ اس نظام کا حصہ نہیں جس سے حکومت ترتیب پاتی ہے۔ وہ محض ایک طرف کھڑے خاموش تماشائی ہیں، اور اُنھیں ہمیشہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ ریاست کا پہیہ کسی بھی وقت انھیں کچل سکتا ہے۔
ٹرین کو ہائی جیک کرنا اور لوگوں کو یرغمال بنانا کوئی معمولی سانحہ نہیں۔ اپنے اثر اور فعالیت کے اعتبار سے یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ یہ ریاست کی سالمیت پر حملہ ہے۔ یہ عوام کی روح پر حملہ ہے۔ یہ واقعہ حکمرانوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ وہ معاملات درست کریں تاکہ اس الزام کا دھبہ اُنکے دامن سے اتر سکے اور وہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا کوئی پائیدار حل تلاش کر سکیں۔ لیکن عوام کو غدار اور ریاست دشمن قرار دینے سے ایسا نہیں ہو گا۔ یہ ذہنیت کی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہمیں تحمل اور بردباری چاہیے۔ میں تمام مراحل کا گواہ ہوں جن سے میرا ملک گزرا ہے، لیکن یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم موجودہ دور میں ایسی بیگانگی کی حد چھو لیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ پتہ نہیں ایسا ہوا تھا یا نہیں، لیکن ان گھمبیر حالات کا کسی کو احساس نہیں جن سے ملک دوچار ہے۔
آئیے !منفی ہتھکنڈے اختیار کرنا، محب وطن افراد کو غدار قرار دینا، دشمنی اور ٹکراؤ کے حالات پیدا کرنا، دوسروں کی وفاداری پر شک کرنا چھوڑ دیں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں۔ صرف ایک شخص کو جیل میں رکھنا ریاست اپنی تمام تر فعالیت کا مقصد نہ بنا لے، کیوں کہ وہ واحد شخص ہے جس پر عوام اعتماد کرتے ہیں۔ اسے عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے، اور وہ عوام کے گروہوں کو اس طرح جو ڑ سکتا ہے جس طرح تسبیح میں پروئے ہوئے موتی۔ قومی شناخت کا تعین کرنے کے اس مشکل چیلنج سے نمٹنے کیلئے ریاست کو اپنا انداز بدلنا ہو گا۔
(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)