• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معاشی حالت کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اکانومی 2025ءکے ششماہی جائزے میں بہتری اور استحکام کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سال 2024 ءاس لحاظ سے حوصلہ افزاقرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں جی ڈی پی کی شرح نمو 0.2 فیصد سے بڑھ کر2.5 فیصد ہو گئی تھی۔ اسی طرح رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں بیرونی ادائیگیوں کا توازن 1.21 ارب ڈالر کے سرپلس کیساتھ پاکستان کے حق میں رہا جبکہ گزشتہ سال کی اس مدت میں یہ خسارہ 1.39ارب ڈالر تھا۔ تجارتی توازن میں یہ تبدیلی ترسیلات زر میں 32.8 فیصد اضافے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے جو کہ اس عرصے میں تقریباً 18 ارب ڈالر کے قریب رہیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی برآمدات 5.2 فیصد اضافے کے ساتھ 8.6 ارب ڈالر رہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے معاشی استحکام میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی کے دوران اس مد میں 20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ان کامیابیوں کے باوجود ہمیں برآمدات بڑھانے اور ملک میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں حال ہی میں اڑان پاکستان پروگرام کے تحت جو پانچ سالہ اقتصادی تبدیلی کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا بنیادی مقصد مینوفیکچرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور زرعی مصنوعات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے برآمدات کو 60 بلین ڈالر تک بڑھانا ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمت میں کمی لانے کے لئے انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا حصہ 10 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ یہ اہداف متنوع اور پائیدار اقتصادی ماڈل کی طرف وسیع تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان اقدامات پر عملدرآمد سے معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن انڈسٹری پر توجہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں خدمات کی برآمدات 6.8فیصد اضافے سے 4.05 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس سروسز سیکٹر میں برآمدات بڑھانے کا قابل ذکر پوٹینشل موجود ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مہنگائی اور مانیٹری پالیسی میں بہتری نے بھی معاشی استحکام بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 2023 میں 29.2 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی جو کہ نمایاں طور پر کم ہو کر 7.2 فیصد پر آ گئی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بینک کی طرف سے ایک سال میں پالیسی ریٹ کو 12 فیصد تک کم کرنے سے بھی بزنس کمیونٹی کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر حکومت کی سطح پر مالیاتی نظم و ضبط کو اسی طرح برقرار رکھا جاتا ہے تو اس سے معاشی بہتری کا ہدف حاصل کرنے کے حوالے سے کارکردگی مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ تاہم ان مثبت اشاریوں کے باوجود ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ اہم صنعتی شعبوں میں نئی سرمایہ کاری لانے اور برآمدی منڈیوں میں پاکستانی برآمدکنندگان کی مسابقتی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے صنعتی ترقی کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ افرادی قوت کو جدید معیشت کے لیے درکار مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لیے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کا معیار بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جہاں تربیت فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں طلبہ کے لئے مڈل یا میٹرک کے بعد کسی جدید ہنر کو سیکھنا لازمی قرار دے کر تھوڑے عرصے میں بڑی تبدیلی لانا ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کی حوصلہ افزائی کے لئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی بینکنگ اور قرضوں تک رسائی آسان بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے کام کو زیادہ بہتر طور پر توسیع دے کر زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے گورننس کو بہتر بنانا اور بدعنوانی سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ سرکاری امور کی انجام دہی میں شفافیت سے ایک ایسا ماحول پیدا کرنے میں مدد ملے گی جہاں کاروبار ترقی کر سکیں۔ اس حوالے سے سرکاری خدمات کی فراہمی اور ٹیکس وصولی کے نظام کی ڈیجیٹلائزیشن سے سرکاری محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف بزنس کمیونٹی کو سرکاری دفاتر کے بار بار چکر لگانے اور سرخ فیتہ کلچر سے نجات ملے گی بلکہ لوگ زیادہ اچھے ماحول میں اپنے کاروبار کو فروغ دے سکیں گے۔ سرکاری محکموں کی ڈیجیٹلائزیشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بزنس کمیونٹی کا ہر فرد اپنے دفتر سے ہی متعلقہ سرکاری محکمے کی خدمات حاصل کرنے کے لئے دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق آن لائن درخواست فائل کر سکے گا اور اسے بار بار سرکاری دفاتر کے چکر لگا کر سرکاری ملازمین سے فالو اپ میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جن پر عملدرآمد سے پاکستان کی معاشی بحالی کا سفر تیز ہو گا اور اس سے کاروبار کے ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے راغب کیا جا سکے گا۔ اس وقت پاکستان کے زیادہ تر دوست ممالک عالمی حالات اور پاکستان میں دستیاب معاشی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ اس لئے اگر ہمارا ریاستی ڈھانچہ اور سرکاری محکمے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے اس میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے تو اس سے پاکستان کی معاشی حالت کو مزید بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور ہمارا ملک معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے گا۔

تازہ ترین