قارئین کرام! بلاشبہ جناب الطاف حسن قریشی پاکستانی قومی صحافت، جس کا بڑا غالب حصہ اردو صحافت ہے، کے حیات جد امجد ہیں۔ بفضل خدا اپنی عمر پیری میں جاری خدمات کے ساتھ سیاسی تاریخ کے اہم لیکن اوجھل ہوگئے حوالوں کو آشکار کرکے نئی نسل کی عملیت میں اضافے کا سامان کر رہے ہیں۔ الطاف صاحب پاکستان میں ڈائجسٹ جرنلزم کے بانی ہیں، ان کی اس خدمت سے پرنٹ میڈیا کے ذریعے تعلیم عامہ اور گھر گھر تفریح عامہ پہنچانے کا موثر ذریعہ، روزنامہ اخبارات اور میگزین جرنلزم کے علاوہ قومی سطح پر تیار ہوا۔ واضح رہے امریکی شہرہ آفاق ریڈرز ڈائجسٹ نے امریکہ ہی نہیں دنیابھر کے انگلش قارئین کی تفریح طبع اور تعلیم عامہ کے ذریعے بطور پوٹیشل شہری ان کی کیپسٹی بلڈنگ کرنے میں عالمگیر خدمت انجام دی۔ الطاف صاحب نے یہ تجربہ پاکستان میں کیا اور بہت کامیاب رہے کہ اردو صحافت میں اس کی تقلید ہوئی۔آج پُر آشوب پاکستان کے بڑے قومی رونے دھونوں اوراہم و حساس ترین مختلف شعبہ ہائے قومی زندگی کی حالت زار میں ایک کلیدی شعبہ قومی صحافت کی تشویشناک صورت ہے جسکے کچھ گرے نہیں ڈارک ایریاز کی نشاندہی جناب الطاف قریشی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’’صورتحال‘‘ کی 14مارچ کی اشاعت بعنوان ’’ذرائع ابلاغ کے نرالے رنگ ڈھنگ‘‘ میں کی ہے۔ خاکسار نے ان کے اس قابل قدر کالم کے فالو اپ میں ’’آئین نو‘‘ کا زیر نظر موضوع دو وجوہات کی بنیاد پر منتخب کیا۔ اول یہ کہ ناچیز کا عملی صحافت،،یونیورسٹی کی سطح پر تدریس صحافت اور میڈیا ایڈوائزری کا کل تجربہ بھرپور پیشہ ورانہ 52سالوں پر محیط ہے۔ اپنے اس پیشہ ورانہ پس منظر کے حوالے سے اپنی کم مائیگی کے باوجود خاکسار سوسائٹی کا مقروض رہتا ہے کہ جو بھی محدود خدمت قومی صحافت کی درستگی سمت و کردار و مزاج و رویے کے حوالے سے تادم سکت و حیات اپنا منجانب پاکستانی سوسائٹی قرض اتارتا رہوں، دعا گو رہتا ہوں۔آپ سے آمین کی درخواست کہ تادم مرگ پیشہ ورانہ سرخروئی حاصل کی ہے۔ قارئین کرام! جاری موضوع کے انتخاب کی دوسری اہم اور بہت محدود وجہ ذاتی غرض ہے۔ میں اس کا مختصر ذکر و اشارہ اپنے دو کالم کے اختتام پر مختصراً دے چکا ہوں کہ میں پاکستان کی گدلی صحافت جس کا تجزیہ ملکی بزرگ صحافی جناب الطاف حسن قریشی نے اس کی ملکی سطح اور ارتقاء میں آئے بگاڑ کے حوالے سے کیا، کا میں مظلوم و معصوم ترین ہدف بہت خطرناک حد تک بنا۔ فضل رب کریم کی کبھی کمی نہیں رہی اور بڑے بڑے ذات پر حملے اس کے کرم سے بلبلے ثابت ہوئے۔ تادم نہیں معلوم کہ کس جرم میں تمام انسانی حدود کو پھلانگ کر فقط ذات نہیں گھر کی چادر اور چاردیواری کو منہدم کرنے کا ناکام بلکہ (انشا اللہ الٹی پڑی) جسارت کا ارتکاب کیا۔ اس کا گہرا تعلق ثابت شدہ گدلی صحافت جو رمضان المبارک میں بھی خود پسندی کے جوش میں ذاتی امیج بلڈنگ کی فائرنگ بیک سے پھیلائی جا رہی ہے۔ ’’آئین نو‘‘ کا آرکائیو شاہد ہے کہ اللہ نے ’’میں، میرے، مجھے‘‘ کی کالم نویسی کے عذاب سے بچائے رکھا۔ جب ناگزیر ہوا تو ’’خاکسار‘‘ ’’ناچیز‘‘ اور ’’آئین نو‘‘ کے سہارے سے گزارا کیا۔ تو قارئین کرام ناچیز پر حملہ آوروں کی کمین گاہ تک مجھے اللہ کے عطا صبر و عمل اور حکمت نے پہنچا دیا۔ وگرنہ خاکسار کی بڑی خامیوں میں سے ایک جذباتی ہونا بھی ٹھہرا ہے۔ تاہم اعتراف کی کچھ سکت سے دنیا داری کم ہونے پر اس جذباتیت کو بھی کم کرنے کی سعی جاری ہے۔ (جاری ہے)
ابتر بلوچستان:واحد حل، علم و عمل
گزشتہ سے پیوستہ
قارئین کرام! ’’آئین نو‘‘ کے موضوع جاریہ کی پہلی قسط میں واضح کیا کہ علم اور قیام پاکستان کا کتناگہرا تعلق ہے، اتنا کہ پارٹیشن آف انڈیا کے GENESIS (انتہائی آغاز) نے علی گڑھ یونیورسٹی میں جنم لیا۔ یہ بھی واضح کیا کہ قیام پاکستان کے پہلے ہی عشرے میں قیادت سے محرومی اور نئی مملکت میں آئین سازی (جو خالصتاً علمی اطلاق کی عملی شکل ہے) پر درباری سازشی اور جاگیر دارانہ سیاست کے غلبے سے آئین سازی ٹلتی رہی اور بننے پر اطلاق بھی۔گورننس کی علم سے دوری اور اس کی جگہ گٹھ جوڑ اور صوبہ پرستی کے رجحانات دیمک کی طرح اندر اندر پھیلتے رہے، نظر بھی آئے تو اس میں اضافہ ہی ہونے لگا۔ یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان میں ترقی کا عمل، علم کی موجودگی اور اطلاق کے باعث نہ مکمل رکا نہ روانی سے چلا۔ اسی میں ملک میں زرعی انقلاب، صنعتی اٹھان اور ادارہ سازی کی بڑی گنجائش نکلی، حتیٰ کہ پاکستان ’’ایٹمی مملکت بن گیا‘‘ نظریے، علم کے تابع سیاست سے دوری، میں سیاسی عمل جتنا آلودہ ہو ا گورننس اتنی بگڑتی تشویشناک اور خطرناک ہوگئی۔
آج دہشت گردی سے سلگتے بلوچستان کے تناظر میں ملکی خصوصاً اہم اور حساس ترین صوبے کی مہلک صورتحال کا تجزیہ یہ نکلا کہ بلوچستان کا مسئلہ ابتدا سے پیدا ہوا اور تادم جاری ہے لیکن اس کا غالب حل جو ملٹری آپریشنز سے نکالنے کی کوشش ہوتی رہی وہ ریت میں مچھلی کی تلاش ثابت ہوئی۔ آج صوبے کا درجہ حرارت دہشت گردی کے ہولناک واقعات سے انتہا پر ہے۔ حل اب خالص سیاسی بھی نہیں رہا کہ سیاست خود بے حد پراگندہ ہوگئی۔ ’’آئین نو‘‘ اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ علم اور سیاست کو ملا کر حل نکالا جائے، یہ ہی ناگزیر ہے۔ داخلی باہمی تنازعات کا جدید دور میں سکہ بند حل CONFLICT RESOLUTIONکے علم سے نکلنا ممکن ہوگیا ہے۔ یہ علم، انٹرنیشنل ریلیشنز، ڈپلومیسی پولیٹکل اور کمیونیکیشن سائنسز، سوشیالوجی، سوشل مائیگی اینتھراپولوجی (علم بشریات) وغیرہ سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ان علوم کو استعمال کرکے درج ذیل داخلی تنازعات بالآخر برسوں کے بعد ان ہی علوم کے اطلاق اور سیاسی قوت کے امتزاج سے حل ہوگئے۔ گڈفرائی ڈے شمالی آئرلینڈ، کولمبیئن پیس پراسس، رونڈا نیشنل دی کونسلیشن پراسس، انڈونیشیا میں دی آچے پیس پراسس، CONFLICT RESOLUTION کی حکومتی سیاسی کوششوں کو متذکرہ علوم کے اطلاق سے مدد لے کر کامیاب ترین ثمرات حصول کی تازہ ترین اور مکمل قابل دید مطالعہ کیس سٹڈیز ہیں۔ پاکستان کا کیس اسلئے پیچیدہ ہے کہ پہلے حکومت کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرکے پھر مطلوب علوم کے اطلاق سے ایجوپولیٹکل آپریشن ڈیزائن کرنے ہونگے۔ خاکسار آج پھر دہرا رہا ہے اس کا آغاز عمران خان کی بلاتاخیر رہائی ہی سے ہوگا۔ یہ ناگزیر سیاسی اور علمی تقاضا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔