• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادارے تعلیم کے ہوں یا صحت کے، قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ نام، نظریہ، مذہب کی تفریق کیے بغیر قائم کئے گئے یہ ادارے یقینی طور پر نعمت خداوندی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ گنگارام اسپتال ہو یا گلاب دیوی اسپتال، دور جدید میں شوکت خانم میموریل اسپتال ریسرچ سینٹر اور اتفاق اسپتال یہ خدمت انسانیت کی نادر مثال ہیں۔ مختلف شہروں میں کئی چھوٹے یا بڑے خیراتی ادارے مصروف عمل ہیں اور لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مسلسل اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن شوکت خانم اسپتال اسلئے نمایاں اہمیت کا حامل ہے کہ یہ کینسر جیسے موذی مرض کے علاج اور سدباب کیلئے گزشتہ 30سالوں سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ آج سے 30سال قبل جب یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اس وقت پاکستان میں عمومی طور پر صحت کی سہولیات کی حالت مناسب نہ تھی اور کینسر کیلئے تو کوئی ایک اسپتال بھی موجود نہ تھا لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بستر مرگ پر ہی اپنی جان دے دیتے تھے۔1992ء کے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد وہیں پر ٹرافی اٹھائے عمران خان نے اس اسپتال کی تعمیر کا اعلان کیا تھا اور پھر پوری قوم کے بڑوں، بچوں، بزرگوں کے تعاون سے 1995ء میں یہ اسپتال مکمل ہوا اور تب سے اب تک خدمت، علاج اور ریسرچ کی نئی مثالیں قائم کر رہا ہے۔ کینسر ایک ایسا موذی مرض ہے جسکی ہولناکیوں سے پوری دنیا متاثر ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ افراد کینسر کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔ کینسر کی مختلف اقسام میں چھاتی کا کینسر سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں سے ایک ہے اور ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 40ہزار سے زیادہ خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں کینسر کے باعث ہونیوالی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ جسکے متعدد اسباب ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کئی دیگر بیماریوں کیساتھ ساتھ کینسر کو ناامیدی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اسکے نتیجے میں موت کو یقینی سمجھا جاتا تھا۔ ان حالات میں شوکت خانم کینسر اسپتال امید کی پہلی کرن بن کر ابھرا۔ 1994 ء میں پاکستانی قوم نے ایک معجزہ کر دکھایا اور شوکت خانم اسپتال کی صورت میں ایک ایسے اسپتال کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا جہاں ایک ہی چھت کے نیچے کینسر کی تمام تشخیصی اور علاج کی سہولیات دستیاب تھیں۔ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سینٹر،کینسر کے مریضوں کیلئے امید کی علامت بن چکا ہے۔ہاسپٹل انتظامیہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں، اسپتال، کینسر کے مفت علاج پر 102ارب روپے خرچ کر چکا ہے،علاوہ ازیں 10لاکھ سے زائد کیموتھراپی اور 10لاکھ سے زائد ریڈی ایشن سیشنز مریضوں کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔ اسپتال نے پاکستان میں کینسر کی تشخیص اور علاج کیلئے پہلی بار جدید ترین مشینری جیسے PET-CT سکینر متعارف کروائے ہیں۔ یہ اسپتال ہر سال ملک کی سب سے بڑی چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی مہم کا اہتمام کرتا ہے۔ شوکت خانم اسپتال نے پنجاب کا پہلا کینسر رجسٹری سسٹم قائم کیا ہے، جو عالمی ادارہ صحت (WHO)کی گلوبل کینسر آبزرویٹری رپورٹ کیلئے ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور ریسرچ سینٹر (SKMCH&RC) کی طبی خدمات کو قومی اور عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ اور اسی کے پیش نظر اس نے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل انٹرپرائز ایکریڈیٹیشن، کوالٹی ان آنکولوجی پریکٹس انیشی ایٹو (QOPI) اور کالج آف امریکن پیتھالوجسٹس کی تصدیق حاصل کی ہے۔ یہ شاندار کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں بھی وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جسکا ہم عزم کریں۔ شوکت خانم اسپتال نے گزشتہ تین دہائیوں میں کئی ناممکنات کو حقیقت میں بدلا۔ آج 30سال بعد، دو فعال اسپتالوں کیساتھ اور کراچی میں تیسرے اسپتال کی تکمیل کے قریب ہے۔شوکت خانم اسپتال لاہورنے 29دسمبر 1994ء کو اپنی خدمات کا آغاز کیا تھا اور اس وقت سے آج تک خدمت کا یہ سفر جاری ہے۔مارچ 2011ء میں پشاور میں دوسرے شوکت خانم اسپتال بنیاد رکھی گئی جس میں 29دسمبر 2015ء کومریضوں کو خدمات فراہم کرنیکا آغاز کر دیا گیا۔ انتظامیہ کے مطابق شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کی سال 1989ء سے آج تک کی آڈٹ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے۔شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے باقاعدہ شریعہ کمپلائنس سرٹیفیکیشن حاصل کی ہے جو اس بات کی تائید کرتی ہے اسپتال کیلئے زکوٰۃ کے حصول، استعمال اور زکوٰۃ فنڈ کی مینجمنٹ کا نظام شرعی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ کراچی میں پاکستان کا تیسرا اور سب سے بڑا کینسر اسپتال زیرِ تعمیر ہے۔ اس وقت اس اسپتال کی عمارت مکمل ہو چکی ہے اور فنشنگ کا کام جاری ہے۔ اس اسپتال کی مکمل لاگت کا تخمینہ تقریباً 22ارب روپے ہے۔کراچی کا یہ اسپتال لاہور کے شوکت خانم اسپتال سے رقبے اور سہولیات کے اعتبار سے تقریباً دو گنا بڑا ہے۔ اسپتال کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی سمیت پور ے سندھ اور جنوبی بلوچستان کے لوگوں کو کینسر کے علاج کی جدید سہولیات ایک ہی چھت تلے میسر ہو جائینگی۔آپ عمران خان سے محبت کریں یا نہ کریں اسکی رائے سے موافقت کریں یا نہ کریں لیکن شوکت خانم میں اسپتال یہ صرف عمران خان کا نہیں یہ پاکستان کا اثاثہ ہے یہ پوری قوم کا اثاثہ ہے رمضان المبارک میں اپنے عطیات کیلئے شوکت خانم اسپتال کو بھی ضرور یاد رکھیں۔

تازہ ترین