پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت کے لیے استعمال ہونے والی طورخم کی گزرگاہ دونوں ملکوں کے ہزاروں گھرانوں کی روزی اور ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں کے ایک بڑے ذریعے کی حیثیت سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔تاہم افغان فورسز کی طرف سے پاکستانی حدود میں تعمیرات پر کشیدگی کے بعد پچیس دن پہلے 21 فروری کو اسے بند کردیا گیا تھا ۔ یہ صورت حال دونوں ملکوں کے لیے بھاری معاشی نقصان کا سبب بنی ہوئی تھی۔ گزرگاہ کی بندش سے ہزاروں کارگو گاڑیاں دونوں جانب پھنس گئی تھیں ۔ پاکستان کو اس کے نتیجے میں تین ملین ڈالر یومیہ کا نقصان ہو رہا تھا‘ بندش کی پوری مدت میں جس کا تخمینہ75 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ دوسری جانب افغانستان کو بھی ایسے ہی شدید منفی نتائج کا سامنا تھا۔ لہٰذا حالات کو معمول پر لانے کیلئے فریقین نے مشترکہ جرگے کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔پاکستانی جرگہ کے سربراہ اور وفاق ہائے ایوان صنعت و تجارت پاکستان کے مشیرسید جواد حسین کاظمی کے مطابق افغان جرگہ نے اپنے حکام کو مشترکہ جرگہ کے فیصلے پر راضی کرلیا جس کے تحت طورخم تجارتی گزرگاہ 19 مارچ سے کھولی جارہی ہے ۔سید جواد حسین نے بدھ کی صبح میڈیا کو بتایا کہ افغان جرگے نے اپنے حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے حوالے سے پاکستانی جرگہ کو آگاہ کیا اور فائر بندی پر اتفاق کے ساتھ طے پایا کہ طورخم سرحد کو ہرقسم کی آمدورفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ باہمی افہام و تفہیم اور بات چیت سے اختلافات کے تصفیے کا دونوں ملکوں کی جانب سے یہ بلاشبہ ایک خوش آئند اور امید افزا مظاہرہ ہے۔ پاکستان اور افغانستان صدیوں سے تاریخی، جغرافیائی،دینی ، تہذیبی اور لسانی رشتوں میں باہم منسلک ہیں۔ خوشگوار اور دوستانہ باہمی تعلقات دونوں ملکوں کی ناگزیر ضرورت ہیں لہٰذا دونوں جانب کے فیصلہ سازوں کو دیگر تمام اختلافات کا حل بھی باہمی گفت و شنید ہی سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔