یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہمارے ہاں اسکول صرف سرکاری ہوا کرتے تھے، ہم سنٹرل ماڈل اسکول لاہور میں پڑھتے تھے جو ہر لحاظ سے صوبے کا ایک رفیع الشان تعلیمی ادارہ تھا، اسکول کی عمارت پُر شکوہ، کمرے کُشادہ، اسمبلی گرائونڈ وسیع، اور اساتذہ طلباء کی تعلیم و تربیت میں یک سُو ہوا کرتے تھے۔ بورڈ کے امتحان میں میٹرک کی پہلی دس پوزیشنوں میں سے اگر کوئی ایک آدھ کسی اور اسکول کا طالبِ علم ’’چُرا‘‘ لیتا تو ہم اسے کسی گہری سازش کا شاخسانہ گردانتے تھے۔اب آ جائیے، اسکول کی فیس کی طرف، ماہانہ فیس تھی اڑھائی روپے سکہ رائج الوقت، اور کیوں کہ بھائی صاحب بھی اسی اسکول میں تھے تو ’کِن شپ‘ قانون کی وجہ سے ہم آدھی فیس ادا کرتے تھے یعنی سوا روپیہ۔ یہ رقم والد صاحبؒ کی ماہانہ آمدن کا تقریباً 0.25 فی صد بنتا تھا۔اس حساب سے ہم نے دس سال میں 150 روپے فیس کی مد میں ادا کر کے میٹرک پاس کیا۔
اب ’’شرفاء‘‘ کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں جاتے، ہمارے معاشرتی حلقے میں تو کسی کے بچے سرکاری اسکول میں نہیں پڑھتے، اور ہمارا معاشرتی حلقہ بنیادی طور پر مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اصحاب پر مشتمل ہے۔ میری ایک بیٹی لاہور کے ایک معروف پرائیوٹ اسکول میں اے لیول کی طالبہ ہے اور ایک بیٹی ایک نجی تعلیمی ادارے میں بی اے میں پڑھتی ہے، ان کی مجموعی فیس میری ماہانہ آمدن کا تقریباً 20فی صد ہے۔ یاد رہے کہ اگر سب عوامل کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو میری ماہانہ آمدن اپنے والد صاحبؒ سے یقیناً زیادہ ہے۔ سادہ لفظوں میں، مدت ہوئی یہ ریاست اپنے شہریوں کو مناسب تعلیم فراہم کرنے کے بنیادی فرض سے ہنسی خوشی دست بردار ہو چکی ہے اور شہری بھی رو پیٹ کے اس تلخ حقیقت سے سمجھوتا کر چکے ہیں، جنہیں بچے پڑھانے کا ’شوق‘ ہے وہ یہ پہاڑ ہزار جتن کر کے خود چڑھتے ہیں۔ یہ 1970 کی بات ہے کہ والد صاحبؒ کو عارضہء قلب لاحق ہوا تو انہیں علاج کی غرض سے گنگا رام ہسپتال لے جایا گیا جو کہ ایک سرکاری ہسپتال ہے، اُس وقت پرائیویٹ ہسپتال شاید ہی کوئی ہو، سب مریض سرکاری ہسپتالوں کا ہی رُخ کیا کرتے تھے، ابو جی نے ایک ماہ سے زیادہ ہسپتال میں قیام کیا، اور وہ تن درست ہو کر گھر لوٹ آئے۔ علاج پر جو رقم خرچ ہوئی وہ بس اتنی ہی تھی کہ ایک استاد کو کسی سے قرض نہیں لینا پڑا۔ پچھلے سال دسمبر میںمجھے بھی کچھ ایسی ہی حالتِ دل کا سامنا ہوا، امراضِ دل کے پنجاب میں سب سے بڑے ہسپتال کے سربراہ سے ہماری یاد اللہ تھی، انہوں نے برادرانہ مشورہ دیا کہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کروا سکتے ہیں تو وہاں چلے جائیں، مشورے پر عمل کیا گیا اور علاج کے لیے درکار رقم کا ’’بندوبست‘‘ کر لیا گیا۔ ہمارا صحت کا نظام خود وینٹی لیٹر پر ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کو مذبح خانے بنے بھی اب ایک زمانہ بیت چکا ہے، ان ہسپتالوں میں اب لاچار شہری جاتے ہیں، ریاست اپنے شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کب کی ناکام ہو چکی ہے، اب تو بس کبھی کبھی کسی ہسپتال کے ایم ایس کو معطل کر کے کاروائی ڈال دی جاتی ہے، اور پھر چل سو چل۔
ہمارے بچپن میں گھروں میں بجلی اور گیس کے بل کہرام کا باعث نہیں ہوا کرتے تھے، ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ ہم نے اپنے والدین کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے کبھی پریشان دیکھا ہو، یا بل کی قسطیں کروانے کا ذکر سنا ہو، یا کسی مجلس میں بجلی گیس کے بے لگام بِل زیرِ بحث آئے ہوں۔ اب یہ گھر گھر کی کہانی ہے، گرمیاں آ رہی ہیں، بلکہ غراتی ہوئی ہماری طرف بڑھ رہی ہیں، کس طرح نپٹنا ہے اس عفریت سے، ہر طرف ہو رہے ہیں یہی مشورے، ’’سب اہلِ خانہ ایک کمرے میں سوئیں گے، انورٹر پنکھے لگوا لیتے ہیں، کوئی فالتو بلب نہ جلنے پائے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے بڑوں کی آمدن کا دو تین فی صد ان بلوں پر خرچ ہوتا تھا، اب کتنا ہوتا ہے؟ اب تو بجلی کا بل آنے پر خود سوزی کے واقعات بھی سننے میں آتے ہیں۔ ریاست یہاں بھی ناکام ہوگئی، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت سب سے مہنگی بجلی پاکستان کے بجھے ہوئے چہروں والے شہری خریدنے پر مجبور ہیں۔ بلوں کے اس پھندے سے جو نکلنے کی کوشش کرتا ہے ریاست کی سنگینوں کا رُخ اس کی طرف ہو جاتا ہے۔ لوگ سولر بجلی کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے تو حکومت نے نئی سولر پالیسی کا اعلان کر دیا ہے، جو سولر بجلی حکومت صارفین سے خریدتی تھی اس کی قیمت نئے صارفین کے لیے 28روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10روپے کر دی گئی ہے، مقصد سولر سسٹم کی حوصلہ شکنی ہے۔ جو بجلی کا یونٹ عام آدمی اپنے گھر 10روپے کا بنا رہا ہے وہ حکومت 50روپے کا بنا رہی ہے، اس سے بڑی نااہلی کیا ہو سکتی ہے، اور ضد کر رہی ہے کہ بجلی حکومت سے ہی خریدی جائے۔ آئی پی پی کمپنیز سے مذاکرات اورکپے سٹی چارجز کم ہو نے کے نعرے تو لگتے ہیں، مگر فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا۔ تفصیلات کی یہاں گنجائش نہیں مگراس ضمن میں حکومت کے سب دلائل بودے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ عوام کا فائدہ، ریاست اپنا نقصان سمجھتی ہے، جسے ’’زیرو سم گیم‘‘ کہتے ہیں یعنی ایک فریق کا جتنا فائدہ ہو گا، دوسرے کا اتنا ہی نقصان۔ یہ دشمنی کا رشتہ ہے۔ صحت، تعلیم، بجلی، گیس، پانی، تھانہ، کچہری، ہر طرف ریاست اپنے شہریوں سے یہی عداوت کا رشتہ رکھتی ہے۔ عوام ریاست و حکومت سے کم سے کم تعلق رکھنا چاہتے ہیں، عوام اس تعلق کو باعثِ ذلت سمجھتے ہیں۔ کیااس ملک کے ۲۵ کروڑ عوام بھی ایک ایسی ٹرین پر سوار ہیں جسے اغوا کر لیا گیا ہے؟