• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی شکست عوام کے لاشعوری رویے کے گہرے پیغام کا اظہار ہے۔ اسے روز مرہ کے سیاسی معمولات کے ترازو میں رکھتے ہوئے تجزیہ کاریوں کی عیاشی پیپلز پارٹی کے دشمنوں کو تو زیب دیتی ہے دوستوں کو نہیں۔ ایسے قابل احترام حضرات کو بھی ا پنے دست شفقت کی مقدار میں ذرا کمی کرنی چاہئے جو ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست کو بیوروکریسی کی کارستانیوں کے کھاتے میں ڈال کر اس جماعت کو مخلصانہ بنیادوں پر تباہ و برباد کرنے کی عادت ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ سینئر ترین لوگ ہیں جن کی پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی خدمات کی عظمت میں کوئی شبہ نہیں، تاہم اب انہیں اپنے وجود کے لئے’’قیادت کا اشاریہ‘‘ ہر لمحہ نگاہ میں رکھنا پڑتا ہے، چنانچہ آزاد کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی عبرتناک شکست کو وہ دھاندلی کے روایتی اجزاء میں زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ مقید کرکے دکھارہے ہیں۔ یہ اپنی ذاتی شناخت کو قائم رکھنے کی وہ مغز ماری ہوتی ہے جسے ’’قیادت کے اشاریے‘‘ کا تقاضا جنم دیتا ہے، چونکہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چاروں شانے چت اس ہار کو ہمارے’’مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا‘‘ کے الفاظ میں منتقل کردیا، لہٰذا اب یہ سب حضرات قطار در قطار اس لائن کی تائید میں اپنی ذاتی حیثیت کا تحفظ دیکھتے ہیں جس کے برعکس چیئرمین کی ناراضی مول لینا پڑے گی، ظاہر ہے پھر ان معتبر اور محترم حضرات کا کوئی ٹھکانا باقی نہیں رہتا، صورت احوال کے اس پہلو بلکہ ایسے متعدد دیگر اسباب اور جہتوں کے تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے تاریخی بحران کے بیانیے اور تجزیے کی ناگزیت سے انکار ممکن نہیں، یہ جماعت اپنے وجود کی مرکزیت میں کسی’’ناجائزیت‘‘ کا شکار ہو چکی ہے۔ اس ’’ناجائزیت‘‘ کا شروع سے ہی کوئی تعلق اس جماعت کی قیادت سے نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بی بی بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو ، شاہنواز بھٹو، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، بختاور اور آصفہ ان میں سے کوئی بھی ’’ناجائزیت‘‘ کے اس دائرے میں نہیں آتا بلکہ ایسا تصور کرنا بھی انسانیت کشی ہوگی۔ یہ وہ حاصل ہے جس پر دلائل بعد میں دیئے جائیں گے، پہلے آپ کالم نگار کے خاکسارانہ رویے کے مطابق اس ’’ناجائزیت‘‘ کے کرداروں سے آگاہ ہوجائیں۔ یہ وہ کردار ہیں جنہوں نے بی بی بھٹو کے دونوں ادھورے ادوار اور آصف علی زرداری کے دور میں خوب پیسہ بنایا۔ کارکنوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیا، طالبان کی دھمکیوں کو ان عوام سے مستقل کٹ جانے کی مستقل اخلاقی بنیادمیں ڈھال دیا جن سے وہ ان دھمکیوں سے پہلے ہی کسی طور پر منقطع ہوچکے تھے، اپنے اپنے حلقوں میں کبھی کبھار عوامی کچہریاں لگاکر، اپنے حکومتی منصب کے طفیل دستیاب کم نگاہ انا پرستی کی تسکین کرتے تھے۔ اس گروہ نے پورے ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی عظیم ترین خدمات اور عوامی ساکھ کا جنازہ نکال دیا۔ چہرہ مسخ کردیا، اس کے تاریخی عوامی عزم کی صداقت کو موت کی نیند سلانے کی کوشش کی بلکہ سلادیا۔ یہ وہ گروہ تھا اور ہے جس کا بھیانک اور بدترین چہرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق منتخب حکومت کے دوران میں اپنی پوری بدہئیتوں کے ساتھ نمودار ہوا۔ آصف علی زرداری پاکستانی عوام کو منتخب حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل کا تاریخ ساز تحفہ پیش کرنے کی جاں گسل جدوجہد میں مصروف تھے۔ وہ اس میں سرخرو رہے، پاکستان آئینی بالا دستی اور جمہوری تسلسل کے صراط مستقیم پر چل پڑا۔ آج ن لیگ کی منتخب حکومت کا لب و لہجہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی وژن کا صدقہ ہے مگر یہ متذکرہ گروہ مختلف وزارتوں کے پبلک ریلشنگ افسران مجاز سے ماہانہ کمیشن طے کررہا تھا۔ ایوان صدر سے40،40لاکھ ماہانہ کی بولی لگاتا ، مطلب یہ کہ محنت ، خون پسینہ اور سیاسی زندگی و موت کے میدان کارزار میں آصف علی زرداری تھے اور مالی ہوس پرستی کے اسیر Carpet beggarsاور سفید پوش کمیشن ایجنٹوں نے اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بدنامی کا بین الاقوامی بازار سجا رکھا تھا۔ آپ ایک اور مثال جس کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ، آج ذرا اس پہ تفصیل سے غور کریں، آپ پی پی پی کے تاریخی بحران کی حالت زار کی اصل رمز تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قریب قریب دو ڈھائی ماہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے احیائے نو اور بحالی کے حوالے سے چھ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ جاری کیا۔ مرکزی میڈیاکوارڈینیٹر سیکرٹریٹ کو اسے ملک کے دانشوروں، وکلاء، پروفیسروں، اہل علم، اخبار نویسوں، تبصروں، تجزیہ نگاروں ا ور کالم نویسوں تک پہنچانے ، ان کے جوابات اور آراء جمع کرنے کا حساس ترین کام یا فرض سونپا۔ یاد رہے پاکستان پیپلز پارٹی میڈیا کوارڈینیٹر سیکرٹریٹ کو اس حوالے سے کشادہ دلی کے ساتھ فنڈز دیئے گئے۔ متعلقہ حضرات نے حسب روایت’’جناب یہ کام کو ہ ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہے‘‘ جیسی منظر کشی سے ان فنڈز کو لمبی چھلانگ کے ساتھ وصول کیا۔ ان پر اب تک گلچھڑے اڑائے جارہے ہوں گے کہ گزشتہ تین چار ماہ میں یہ میڈیا سیکرٹریٹ یا اس مشن سے متعلق حضرات ان طبقوں میں سے کوئی ایک نام یا ان کے مضامین و افکار کی کوئی ایک یا چند تحریریں بطور ثبوت پیش کردیں جو انہوں نے چیئرمین کے غور و فکر کے لئے پیش کی ہوں۔ یہ 2016میں تازہ ترین مالی وقوع کی تازہ ترین سرگرمی ہے۔ حقیقتاً یہ محض ایک واقعہ نہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈھلوانی سفر کے شاید آخری مناظر ہیں۔ آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں توہین آمیز عبرت پر مبنی شکست ایسی ہی ایک ناقابل تلافی جھلک ہے۔ اس کا کوئی تعلق دھاندلی تھیوری سے نہیں، بھرپور انتخابات کے ان ووٹروں نے بھرپور ووٹوں کی قوت کے سلسلے میں پی پی کے امیدواروں کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔آپ اب اس خیال کو کسی دیوانے کی المناک حالت کا نتیجہ نہ سمجھیں جو ظاہر کیا جانے والا ہے۔ پنجاب میں پی پی کے ’’جنازے سے لے کر آزاد کشمیر کے عام انتخابات کی اس ڈوب مرنے کی حد تک ملنے والی سیاسی شرمندگی کے پس منظر میں اسی گروہ کے پیدا کردہ تاثر اور گزشتہ تقریباً آٹھ برسوں میں سندھ حکومت میں بدترین طرز حکومت اور بدترین عوامی شہرت کا نتیجہ ہے۔
تازہ ترین