دانش رفیق
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج محنت کشوں کا دن منایا جا رہا ہے۔ یہ عالمی دن منانے کا مقصد فقط یہ نہیں ہے کہ اس روز تعطیل کردی جائے بلکہ یہ دن منانا اصل میں مزدور کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے محنت کش شکاگو کے ساتھیوں کے ساتھ یک جہتی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ محنت کشوں کی فلاح کے ہر میثاق کی تجدید اور جدید تقاضوں کے مطابق ان میں اضافہ و ترمیم کرنا ہے۔
کسی بھی ملک، قوم اورمعاشرے کی ترقی میں مزدوروں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ، مگر سب سے زیادہ حق تلفی ان ہی کی، کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار طبقے مزدور کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور مزدور اسے اپنا مقدّر سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بھی مزدوروں کا وجود ہے، جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ مزدوری ہر کوئی کرتا ہے ، مگر سب کے درجات الگ ہوتے ہیں۔
ہر مزدور اپنے میدان میں اپنی بساط بھر مزدوری کرتا ہے اور اجرت حاصل کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتا ہے۔ مزدوروں کے مفاد اور ان کے حقوق کے لیے کمیونسٹ بہت سرگرم رہے، جس کے لیے انہوں نے مزدوروں کا اتحاد قائم کیا اور آواز بلند کی، یہاں سے مزدوروں کو بھی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ ان کے وجود کی اہمیت ہے اور اگر وہ اپنی خدمات پیش نہیں کریں گے، تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔
معاشرتی زندگی میں یوں تو ہر شخص مزدور ہے، لیکن خون پسینہ بہا کر روزی کمانے والا، اپنی محنت سے جوئے شیر لانے والا، سنگلاخ چٹانیں توڑنے والا، قافلے لٹا کر منزل کو سینے سے لگانے والا اور دھوپ میں جل کر دوسروں کو چھاؤں بخشنے والا، اپنی خوشیاں دوسروں پر قربان کرنے والا حقیقی مزدور کہلاتا ہے۔ مزدور کی اہمیت ہر جا مسلمہ ہے۔
تمام مذاہب میں محنت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام نے مزدور کی عظمت کا اعتراف جس انداز سے کیا ہے وہ عالم گیر حقیقت ہے۔ محنت کش کو اللہ کا دوست گردانا گیا۔ اس کی اجرت کی فوری ادائیگی کی تلقین کی گئی اور کہا گیا کہ یہ کام مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے کردیا جائے۔ قومیں اپنے نظریات سے ہی پروان چڑھتی ہیں۔ دولت کمانے کی مخالفت کوئی نہیں کرتا، لیکن ہر معاشرہ مادیت میں گم ہوکر روحانیت کو بھول جانے کا مخالف ہے۔
پوری دنیا میں ہر دور میں مزدوروں کا استحصال ہوتا رہاہے ، یہ ہی سبب ہے کہ بہت سی تنظیموں نے اس کے لیے احتجاج کیا اور مزدوروں کے حقوق حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جانا دراصل اْن مزدوروں اور محنت کشوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے شگاگو میں1886ء میں اپنے مطالبات منوانے کے لیے خون کا نذرانہ دیا۔
اس سانحے کا پس منظر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا میں جب سرمایہ دارانہ نظام نے سر اٹھایا تو اس کا سارا نزلہ مزدروں پر گرا۔ مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا، ان کے کام کے اوقات بھی طے نہیں تھے۔ 12سے 18 گھنٹوں تک مزدوری عام ہوگئی تھی۔ محنت کشوں کو چھٹی کرنے کی اجازت نہیں تھی جس سے بہت سے مزدور بیمار ہو جاتے۔
علاج معالجے کے بجائے بیمار ہونے والے مزدوروں کو نوکری سے نکال دیا جاتا۔ مزدوروں سے اتنا سخت کام لیا جاتا اور ان کے ساتھ ایسا غیر انسانی رویہ اختیار کیا جاتا کہ تاریخ بھی گریہ کرے۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے مزدور اپنا استحصال برداشت کر رہا تھا۔ جب ظلم و ستم کے پہاڑ حد سے زیادہ ٹوٹے تو مزدوروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی لگن پیدا ہوئی اور انہوں نے اس ظالمانہ نظام سے بچنے کے لیے تحریک کا آغاز کیا۔
یہ 1886کی بات ہے جب یکم مئی کو تمام مزدوروں نے ہمت کرتے ہوئے ہڑتال کا اعلان کردیا۔3 مئی کی یہ ہڑتال بہت حد تک پرامن بھی رہی ،لیکن وہاں کی پولیس جو سرمایہ دار کی پروردہ اور مراعات یافتہ تھی، کو یہ پر امن ہڑتال گوارہ نہ ہوئی اور اس نے ایک فیکٹری میں گھس کر فائرنگ کردی اور چھ سات مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہلاک کیے جانے والے ان مزدوروں اور محنت کشوں سے یکجہتی کے طور پر4مئی کو شکاگو میں پرامن ریلی نکالی گئی۔
مزدور راہ نماؤں نے جلسوں میں تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ پولیس ان پر پل پڑی۔ ریلی پر بم پھینکا گیا جس سے ایک پولیس کا جوان بھی مارا گیا۔ اس کا الزام بھی مزدوروں پر ڈال دیا گیا۔ چناں چہ پولیس نے وہاں پر موجود مزدوروں پر اندھادھند گولیاں برسانا شروع کردیں جس کے نتیجے میں کئی مزدور ہلاک اور زخمی ہوگئے، فرش خون سے سرخ ہوگیا، فضا میں اداسی چھاگئی، تاریخ میں ہے کہ ان ہی میں سے ایک شخص نے خون میں ڈوبی ہوئی اپنی قمیص ہوا میں لہرائی جس کے بعد سرخ رنگ مزدوروں کا علامتی رنگ بن گیا۔ واقعے میں مجموعی طور پر چھ پولیس اہل کار اور چار بے گناہ محنت کش جان سے گئے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب مزدور تحریک کا آغاز ہوا، جسے ہم ہر سال یوم مزدور کے طور پر مناتے ہیں، جس کے بعد مزدوروں پر مقدمے بنائے گئے، انہیں پھانسیاں دی گئیں، عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ لیکن مزدوروں کی ہمت اور طاقت اور ان کے جذبوں کو کوئی بھی مسمار نہ کرسکا۔
وہ اسی طرح آج بھی اپنی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے کوشاں ہیں۔1889میں ریمنڈ لیون کی تجویز پر1890میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں پہلی مرتبہ یکم مئی منایا گیا اور مزدوروں نے اپنی تحریک اور قربانیوں سے بہت سے نتائج حاصل کیے۔
کام کا دورانیہ آٹھ گھنٹے طے پایا۔ ہفتہ وار چھٹی، ٹریڈ یونین کا حق، ملازمت کا تحفظ، کسی نا انصافی کی صورت میں لیبر کورٹ میں قانونی چارہ جوئی، خواتین مزدوروں کو زچگی کی چھٹیاں اور مزدوروں کی فلاح و بہبودکے لیے دیگر قواعد و ضوابط طے کئے گئے۔
مزدوروں کا عالمی دن عمومی طور پر یکم مئی کو منایا جاتا ہے لیکن کچھ ممالک اسے مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں لیکن ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے جو یکم مئی کو منائے جانے کا مقصد ہے۔ لہٰذا ہر سال یکم مئی کو چھٹی منانے، پروگرام منعقد کرنے سے مزدوروں کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا ان کا حق ادا کرنے کے لیے ان کے ساتھ انسانی رویہ اور ان کی معاشی خدمت بہت ضروری ہے۔
شکاگو میں چند کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کرکے مزدوروں کی عالمی تحریک کو بقائے دوام بخشا۔ اْنہوں نے اپنے خون سے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا۔ گویا یکم مئی ایک تاریخ ساز دن ہے۔ یہ دن تمام دنیا کے محنت کشوں کے لیے فتح کا دن ہے۔ یہ دن منا کر مزدور اپنے شکاگو کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
مزدور اپنے اپنے ملکوں میں مختلف مظاہروں کے ذریعے تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ ظلم و استبداد ناانصافی اور استحصال کے خاتمہ کے لیے جدو جہد تیز کریں گے اور دنیا میں سماجی انصاف اور معاشی خوش حالی قائم کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔
شکا گو کے محنت کشوں کی قربانیوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ انہوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے جو شمع روشن کی وہ ہمیشہ منور رہے گی۔ مزدور خون، پسینہ بہاتا ہے تو معاشرہ خوش حال ہوتا ہے۔ لیکن بہ قول شاعر صورت حال اب بھی یہی ہے۔
بھوک کے، پیاس کے، خطرات سے ڈر جاتا ہے
مار کے اپنے ہی بچوں کو وہ مر جاتا ہے
ہر طرف اُس کی ہی محنت کے مظاہر ہیں مگر
بھوک کے ہاتھ سے مزدور بکھر جاتا ہے
شکاگو کے محنت کشوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے بیش تر ممالک میں یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مزدوروں کے معاشی حالات تبدیل کرنے کے لیے کوششیں تیز کی جائیں۔
بہت سے ممالک میں یکم مئی کو موسم بہار کے ایک قدیم تہوار کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن آج کل اس دن کو عالمی یوم مزدور کے نام سے منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کی تاریخی جدوجہد اور کام یابیوں کو یاد کیا جا سکے۔
ہر سال اس دن دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے ہیں جن کا مقصد کارکنوں کو بہتر حالاتِ کار اور ٹریڈ یونینز کو زیادہ اختیارات دینے کے مطالبات دہرانا ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں چند سوشلسٹ اور کمیونسٹ تنظیمیں اور مزدور دوست گروہ یہ دن منایا کرتے تھے، لیکن پھر اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔
اگرچہ اس تاریخ کا تعلق امریکا میں انیسویں صدی کے اواخر میں ہونے والے احتجاج سے ہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ خود امریکا میں محنت کشوں کا دن ہر برس ستمبر کے پہلے پیر کو منایا جاتا ہے۔ امریکا کے علاوہ آسٹریلیا، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں بھی یہ دن ستمبر کے پہلے پیر کو ہی منایا جاتا ہے۔
یہ 1886کی بات ہےکہ امریکا میں ٹریڈ یونینز نے برطانوی سماجی مصلح، رابرٹ اوون کے پیغام کی بنیاد پر دن میں آٹھ گھنٹے کے اوقاتِ کار کا مطالبہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ہڑتالیں شروع کیں۔ رابرٹ اوون نے آٹھ گھنٹے کام کرنے کا خیال دن کو تین حصوں میں تقسیم کرنے یعنی، آٹھ گھنٹے محنت، آٹھ گھنٹے تفریح، آٹھ گھنٹے آرام، کے نعرے کے ساتھ وضع کیا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب کارخانوں میں کام کے اوقات یا چھٹی کا دن مقرر کیے بغیر سخت محنت مزدوری کرنا معمول تھا۔
اس سلسلے میں سب سے بڑی ہڑتال یکم مئی کو شکاگو میں کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق اس دن احتجاج کے لیے وہاں چالیس ہزار کارکن جمع ہوئے۔ اس وقت شکاگو، امریکی صنعت کا مرکز اور یونین آرگنائزیشن کا مرکز تھا۔اس احتجاج کو کاروباری اور سیاسی حلقوں کی طرف سے پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا۔
لیکن آنے والے دنوں میں اس میں اوقاتِ کار سے تنگ ہزاروں غیر مطمئن کارکنوں کے علاوہ ’’انارکسٹس‘‘ بھی شامل ہو گئے۔ ’’انارکسٹ‘‘ کہلائے جانے یہ لوگ دراصل وہ لوگ تھے جو قوانین کے نفاذ اور حکم رانی کے ارد گرد تشکیل پانے والے معاشرے کے مخالف تھے۔کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
پولیس کی سختی سے مشتعل مزدور راہ نماؤں اور ہڑتال کرنے والے مظاہرین نے چار مئی کو شکاگو کے مشہور ’’ہے مارکیٹ اسکوائر‘‘ پر مظاہروں کا اہتمام کیا۔ اس دن ایک نامعلوم حملہ آور نے پولیس کے اہل کاروں پر بم پھینک دیا اور دھماکے اور اس کے بعد ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے سات پولیس اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔’’ہے مارکیٹ قتل عام‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والے اس واقعے کے بعد، آٹھ’’ انارکسٹس‘‘ پر قتل کا الزام عائد کیا گیا اور ان میں سے کچھ کو موت کی سزا سنائی گئی۔ حالاں کہ ان کا جرم کبھی بھی صحیح طور پر ثابت نہیں ہوا تھا۔
شکاگو میں ہونے والی جھڑپوں نے آنے والے برسوں میں بائیں بازو کی بہت سی جماعتوں کے لیے تحریک کا کام کیا۔ 1889 میں بیس ممالک کی سوشلسٹ اور مزدور جماعتوں اور ٹریڈ یونینز کے نمائندوں کے اجلاس میں یکم مئی کو ان واقعات کی یاد میں یومِ مزدور منانے کا فیصلہ کیا گیا۔
جنوبی یورپ میں، یوم مئی کو سب سے پہلے منانے والے سلووینین اور کروٹس تھے جو اس وقت آسٹرو ہنگری سلطنت کا حصہ تھے۔ کام کے مشکل حالات، کم اجرت اور طویل اوقات نے جلد ہی سربیا میں کارکنوں کو1893میں یوم مئی کی ریلی کا اہتمام کرنے پر اکسایا۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد، صنعتی ترقی میں تیزی کے نتیجے میں روس میں کمیونسٹ انقلاب کے زیر اثر، محنت کشوں نے دنیا بھر میں بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ جرمنی میں نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد 1933 میں یوم مزدور کو سرکاری تعطیل ہونے لگی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جرمنی نے اس دن چھٹی دینے کا فیصلہ تو کیا لیکن آزاد یونینوں کو ختم کر دیا جس کا نتیجہ جرمن مزدور تحریک کے عملی طور پر خاتمے کی شکل میں نکلا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی جرمنی میں ایسی ٹریڈ یونینز دوبارہ بن سکیں۔
دوسری عالمی جنگ میں اتحادی ممالک کی فتح کے بعد، عالمی نقشہ بدلا اور سیاسی اور اقتصادی تقسیم مزید نمایاں ہوئی۔ کیوبا، اس وقت کے سوویت یونین اور چین جیسے سوشلسٹ ممالک میں کئی دہائیوں سے یومِ مزدور منایا جا رہا ہے۔ اس دن عام طور پر بڑی بڑی پریڈز ہوتی ہیں جیسا کہ ماسکو کے ریڈا سکوائر پر منعقد ہونے والی پریڈ، جس میں پارٹی اور ریاستی عہدےدار شریک ہوتے رہے ہیں۔
کمیونسٹ راہ نماؤں کا خیال تھا کہ یومِ مزدور پر تعطیل اور جشن یورپ اور امریکا میں محنت کش طبقے کو سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد میں متحد ہونے کی ترغیب دے گا۔ سوشلسٹ وفاقی جمہوریہ یوگوسلاویہ میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی، جہاں 1945 میں یکم مئی کو سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان کیا گیا اور اسے جلسے جلوسوں کے ساتھ منایا گیا تھا۔
ایشیا میں جن ممالک میں یوم مزدو یکم مئی کو منایا جاتا ہے ان میں پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش بھی شامل ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں یوم مزدور منانے کا آغاز یکم مئی 1923 کو مزدور کسان پارٹی نے مدراس میں کیا تھا۔ حکومت پاکستان نے یکم مئی 1972کو پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا تھا۔
دنیا بھر میں مزدور یونینز اور کارکنان یوم مئی پر مزدوروں اور کارکنوں کے لیے بہتر حالات کا مطالبہ کرنے کے لیے جلسے، جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ دنیا میں بےروزگاری اور غریب کارکنوں کی تعداد میں متوقع اضافے کے پیش نظر مزدوروں کے حقوق اہم ہیں۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے اپنی 2024 کی پیشن گوئی میں کہا تھا کہ کم بے روزگاری اور روزگار میں مثبت نمو کے باوجود، جی 20 ممالک کی اکثریت میں بنیادی اجرتوں میں کمی واقع ہوئی، کیوںکہ اجرتوں میں اضافہ گذشتہ سال منہگائی کی رفتار کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔
آئی ایل او کا کہنا تھا کہ 2023 میں انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں عالمی سطح پردس لاکھ کا اضافہ ہوا، جو فی کس سوا دو ڈالر روزانہ سے بھی کم کماتے ہیں۔اور نستباً کم غربت میں رہنے والے ایسے کارکنوں کی تعداد میں بھی تقریباً چوراسی لاکھ کا اضافہ ہوا جن کی یومیہ فی کس آمدن 3.65 ڈالر سے کم تھی۔
پاکستان میں قومی سطح پر یوم مزدور منانے کا آغاز 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہوا، اس دن کی مناسبت سے ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تقریبات، سیمینارز، کانفرنسز اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ملک کے مزدور راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو آج بھی صحت کی سہولتوں سمیت سوشل سکیورٹی تک دست یاب نہیں، منہگائی کے دور میں بچوں کو پڑھانا اور دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔آج پاکستان کا مزدور بہت مشکل حالات کا شکار ہے، آج بھی سخت محنت کرنے کے بعد فٹ پاتھ پر ہی سوتا ہے:
سو جاتا ہے فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتا
وطن عزیز میں جاری سیاسی صورت حال کا اثر معیشت پر بھی پڑا ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ مزدور طبقہ ہی ہے۔ سرمایہ کار ناسازگار حالات میں سرمایہ کاری روک لیتے ہیں جس سے صنعتیں اور روزگار فراہم کرنے والے دیگر ادارے بند ہوئے اور اس کا خمیازہ سب سے زیادہ مزدور کو بھگتنا پڑا ہے۔
کچھ عرصہ کے دوران ملک میں کام کرنے والی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ریکارڈ کمی دیکھی کی گئی ہے۔ چناں چہ آج مزدوروں کی بہبود کے لیے صنعتی یونٹوں کو فعال اور مزدور دوست بنانا بھی از حد ضروری ہے۔
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق مقرر کرنے اور ان پر عمل درآمدکے لیے سوشل سیکیورٹی جیسے محکمے موجود ہیں۔ لیبر ڈپارٹمنٹ نے آجر اور اجیر کے مابین معاملات اور اصول و ضوابط کو ترتیب دیا، قوانین تشکیل دیے۔بلاشبہ اس سے مزدوروں کو بے شمار فوائد ملے ہیں، لیکن ان قواعد و ضوابط پر پوری طرح عمل کر کے مزدور کو مزید آسودہ حال بنایا جاسکتا ہے۔ دراصل استحصال کے راستے بند کرنے سے خوش حالی کے در کھلتے ہیں۔