• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہفتہ قبل اسرائیل کے ایران پراچانک اور بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حملے نے دنیا بھر کو چونکا دیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیل کے بہ قول اس کے دو سو لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ ایران میں خفیہ طور پر موجود اسرائیل کے کمانڈوز اور تربیت یافتہ افراد نے اندرونِ ایران سے بھی حملے کیے۔ ان حملوں میں اسرائیل نے ایران کے صفِ اوّل کے عسکری راہ نماوں اور جوہری سائنس دانوں کو کام یابی سے ہدف بنایا۔

ایران کے اس وسیع پیمانے پر ہونے والے نقصان کے بعد اسرائیل اور امریکا سمیت پوری دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ اب ایران کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور وہ ہتھیار ڈال دے گا۔ لیکن پھر دنیا نے دوسری مرتبہ حیران کن نظارے دیکھے۔ اس مرتبہ یہ نظارے ایران نے کرائے۔ 

اسرائیلی حملے اور اس کے جواب میں ایران کے عسکری ردِعمل نے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے توازن، اسٹریٹجک اتحادوں، اور مسلم دنیا کے وقار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جہاں ایران کی دفاعی صلاحیت نے سب کو حیران کر دیا، وہیں امریکا، چین، روس، پاکستان ، بھارت، افغانستان اور پوری مسلم دنیا اس بحران میں اپنے اپنے مقام اور کردار کے حوالے سے کسی فیصلہ کن لمحے کا سامنا کر رہی ہے۔

بہت مہلک اسرائیلی حملہ اور ایران کا حیران کن جواب 

رواں ماہ کی تیرہ تاریخ کو اسرائیل نےایران کے جوہری اور عسکری اثاثوں پر بھرپور فضائی اور سائبر حملہ کیا۔ نطنز، اصفہان ، قُم سمیت سوسے زائد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ مقصد تھا کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا جائے، مگر اگلے چھتّیس گھنٹوں میں ایران نے ایسا جواب دیا جس نے دنیا کو حیران کر دیا اور تاحال ،یعنی ،جمعہ بیس جون تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔

ایران نے اسرائیلی ہوائی اڈوں پر درست نشانے لگاکر میزائل سے حملے کیے۔عراق اور مشرقی شام میں امریکی مفادات والے مقامات کو نشانہ بنایا گیا، مگر امریکا کے جانی نقصان سے گریز کیا گیا۔ آئرن ڈوم سسٹم کو الیکٹرانک جیمنگ سے وقتی طور پر ناکارہ کر دیا گیا۔ تمام حملے شہری آبادی سے ہٹ کر، مہارت سے کیے گئے۔ یہ حملے صرف انتقام نہیں تھے، بلکہ پیغام تھے کہ ایران اب بھی اسٹریٹجک مزاحمت کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بے بس اسلامی ممالک

اسرائیل کی اپنے ناجائز وجود کے قیام سے اب تک جاری توسیع پسندانہ اور وحشیانہ حکمت عملیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں بے گناہ افراد کا بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے۔ اس کام کے لیے وہ طرح طرح کے گھناونے ہتھکنڈے اور جھوٹے پراپیگنڈے کا وسیع پیمانے پر استعمال کرتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کو انسانی خون سے رنگنے کے لیے کبھی وہ اپنی ظالم فوج کو استعمال کرتا ہے اور کبھی اپنی خفیہ سروس، موساد کے ایجنٹس کو دنیا بھر میں بھیجتا ہے۔

لیکن طاقت ور مغربی ممالک نہ صرف اس کی ان حرکتوں کو روکنے کی کوئی معمولی سی بھی کوشش نہیں کرتے بلکہ اس کی ہر قسم کی مدد اورحمایت کرنے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کم از کم دو دہائیوں سے ایران کے سوا کوئی بھی اسلامی ملک اس کے خلاف میدان میں نہیں اترا۔

اب بھی خلیجی ریاستیں صرف ’’تحمل‘‘کی اپیلوں تک محدود ہیں۔ ترکی نے بھی بیانات دیے، مگر کوئی عملی کردار ادا نہ کیا۔ او آئی سی (OIC) ایک بار پھر غیر فعال ثابت ہوئی ہے۔ 

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین اور مصر جیسے ممالک میں سے کوئی خاموش ہے،کوئی غیر جانب دار ہےاور کوئی دباو کے آگے جھکا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس خاموشی کی اصل وجہ مسلم دنیا کی وہ ساختی کم زوری ہے جس میں اندرونی استحکام کو مغربی سرپرستی پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سے زیادہ ترمیں حکومتیں عوامی مینڈیٹ سے محروم ہیں اور اپنی حکومت اور ملک کی سلامتی کے لیے امریکی افواج پر انحصار کرتی ہیں۔

خوش گوار تعلقات سے دشمنی تک کا سفر

تاریخ کے صفحات کھولیں تو پتا چلتا ہے کہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران اور اسرائیل کے بہت خوش گوار تعلقات تھے۔ لیکن امام خمینی کی قیادت میں آنے والے انقلاب کے بعد یہ صورت حال یک سر بدل گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اس معاملے کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس کا تعلق پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلم دنیا میں روایتی استعمارسے نیو کالونیل ازم کی طرف منتقلی سے ہے جس میں ایران اور دیگر مزاحمتی ریاستوں کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ 

سابق ایرانی ولی عہد رضا پہلوی
سابق ایرانی ولی عہد رضا پہلوی

اس میں مغربی طاقتوں کے ذریعے سرحدوں کی ازسرنو تشکیل، فرقہ وارانہ شناختوں کے استحصال، اور خودمختار قیادتوں کی بیخ کنی کے عمل کو تاریخی سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں عراق، لیبیا، پاکستان اور ایران جیسے ممالک کی مثالوں کے ذریعے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کس طرح جدید سامراج نے مالیاتی اور نظریاتی کنٹرول کے نئے طریقے اختیار کیے۔

دراصل پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے نے یورپی سامراجی طاقتوں کو مشرق وسطیٰ کا جغرافیہ ازسرِ نو ترتیب دینے کا موقع دیا۔1916 کے خفیہ سائیکس-پیکو معاہدے کے ذریعے برطانیہ اور فرانس نے عرب علاقوں کو باہمی اثر و رسوخ کے علاقوں میں تقسیم کیا۔ ان نئی ریاستوں پر وفادار شاہی خاندانوں کو بٹھا کر مغربی مفادات، بالخصوص تیل، کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔

پھر 1917میں جاری کردہ بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے برطانوی حکومت نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی۔ اس اقدام نے مشرق وسطیٰ میں مستقل تصادم کی بنیاد رکھی اور مغرب کے مستقل اثر و رسوخ کو ممکن بنایا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بہ راہِ راست قبضے کے بجائے نیو کالونیل ازم کا ماڈل اپنایا گیا، جس میں عالمی مالیاتی ادارے اور وفادار مقامی حکومتیں اہم کردار بن گئے۔ 1944کے بریٹن ووڈز اجلاس میں عالمی اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی، جس کے ذریعے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ڈالر پر مبنی معیشت نے نوآزاد ریاستوں کو مالیاتی غلامی میں جکڑ دیا۔

مکڑی کے جال سے نکلنے کی کوشش اور اس کی قیمت

اس غلامی سے نکلنے کی ایک ادنی کوشش میں عراق کے صدر صدام حسین نے تیل کی تجارت میں ڈالر کے بجائے یورو اپنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 2003 میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بناکر امریکا نے اتحادیوں سمیت اس پر حملہ کر دیا۔ معمر قذافی نے افریقی سونے پر مبنی کرنسی کی تجویز دی، جسے مغربی مالیاتی نظام کے لیے خطرہ سمجھا گیا۔

نتیجتاً2011میں نیٹو کی مداخلت سے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کوکم زور کرنے کی کوششیں دراصل ایران اور روس سے اس کی قربت کے خلاف تھیں تاکہ امریکی بالادستی برقرار رکھی جا سکے۔

پاکستان میںذو الفقار علی بھٹو نے مسلم اتحاد، ایٹمی خودمختاری اور مغربی انحصار کے خلاف موقف اپنایا، جس کی پاداش میں انہیں1979میں متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے پھانسی دے دی گئی۔

ایران کا انقلاب اور اس کی مشکلات

ایران میں 1979میں امام خمینی کی قیادت میں جو انقلاب آیااس نے ایران کو امریکی تسلط سے آزاد کرایا۔ اس کےبعدایران کو سخت ترین اقتصادی پابندیوں، سفارتی تنہائی، اور عسکری دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ایران نے اپنے تیل و گیس کے ذخائر، جوہری پالیسی اور خارجہ خودمختاری کو برقرار رکھا۔ 2024 میں ایران کی طرف سے اسرائیلی فوجی اہداف پر حملے نے اس کی دفاعی و نظریاتی طاقت کو ثابت کر دیا، اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدلنے کی نوید دی۔

لیکن اس سے کافی عرصہ قبل ہی ایران کے خطرے کو بھانپتے ہوئے عالمی طاقتوں نے اسے عالمی مسلم برادری سے الگ تھلگ کرنے کے لیے شیعہ، سنی تقسیم کو بہ طور ہتھیار استعمال کرناشروع کردیا تھا جس میں وہ کافی حد تک کام یاب بھی رہی ہیں۔ مگر ہر طرح کی صورت حال میں ایران نے حیرت انگیز طور پر اپنی ریاست اور انقلابی فکر کو اب تک بچائے رکھا ہے۔

ایران کی مزاحمت

ایران کی مزاحمت اس بات کی مثال ہے کہ سامراجی نظام کے خلاف ڈٹے رہنے سے خودمختاری ممکن ہے۔ جیسے جیسے مختلف ممالک خودمختاری کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، یونی پولر دنیا کا زوال اور ملٹی پولر نظام کا ظہور ممکن ہوتا جا رہا ہے۔

ایسے میں اسلامی ممالک کو فرقہ واریت سے نکل کر ایک باوقار، آزاد اور باہم مربوط خارجہ پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ اگرچہ کٹھن راہ کاسفر ہے، مگر اس کے نتائج بہت باوقار اور شان دار ہیں۔ اس ضمن میں ایران کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے۔

ایران نے اقتصادی پابندیوں، احتجاجی تحریکوں، اور سفارتی تنہائی کے باوجود درج ذیل حقائق ثابت کر دیے:

1 خودمختار دفاعی نظام: ایران نے کسی اتحاد کے بغیر جواب دیا۔ 2 غیر متوازن جنگ کی مہارت: ڈرون، سائبر، اور میزائل ٹیکنالوجی کے امتزاج سے حملے کیے۔

3 نپی تلی جوابی کارروائی: بے قابو انتقام، نہ زیادہ شہریوں کی اموات۔

4 خطے کو پیغام: اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں۔

5 نظریاتی برتری: بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کے بہ قول ایران نے اب باقاعدہ طور پر مزاحمت کی قیادت سنبھال لی ہے۔

جون 2025 کے واقعات نے واضح کیا ہے کہ ایران ایسا اسلامی ملک ہے جو آزادانہ ردعمل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب بہت سے اسلامی ممالک اپنے ملکوں میں امریکی اڈوں کے باعث، پالیسی سازی میں مجبور اور غیر مؤثر ہیں۔

چناں چہ عالمی سیاست کے ماہرین کے بہ قول اسرائیل نے فوجی برتری کے ساتھ خطے میں سیاسی اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے اور امریکا کے اڈے اب صرف فوجی تنصیبات نہیں رہے بلکہ مسلم خودمختاری کی علامتی کم زوری بن چکے ہیں۔

ان ماہرین کے مطابق جب تک اسلامی ممالک عسکری، سفارتی، اور نظریاتی خود کفالت حاصل نہیں کرتے تب تک ملکی خودمختاری محض ایک سرکاری لیبل رہے گی۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں ایران، اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود آج واحد اسلامی ملک ہے جو عملی مزاحمت کی علامت بن کر ابھرا ہے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی کی شکست

امریکی فوجی اور سابق نیوکلئیر انسپکٹر اسکاٹریٹر نے کہا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو کاری ضربیں لگائی ہیں۔ حیفہ کی بندرگاہ مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے۔ بن گوریان ائیرپورٹ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ گیس کی تنصیبات ختم ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کے اندر کئی اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اور یہ صرف وہ کچھ ہے جو ہمیں دکھایا جا رہا ہے، لیکن بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے۔

بعض سیاسی اور عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی فضائیہ اپنے ائیر بیسز سے محفوظ طریقے سے اُڑان بھی نہیں بھر سکتی۔ اسی لیے وہ برطانیہ کے زیر انتظام قبرص کے فوجی اڈوں کا سہارا لے رہی ہے اور یہ صورتِ حال آنے والے دنوں میں مزید بگڑسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکا نے اربوں ڈالرز جھونک کر جو دفاعی نظام تیار کیا، جسے آئرن ڈوم کہتے ہیں، وہ بے کار ہو چکا ہے۔ ایران کے جو میزائل روکے جارہے ہیں، وہ صرف وہی ہیں جنہیں روکنے کے لیے ہی چھوڑا گیا ہوتا ہے۔ ایران نے دس بیس سال پرانے میزائلوں کو اس طریقے سے تیار کیا ہے کہ وہ ڈیفنس سسٹم کو الجھا لیتے ہیں، دفاعی نظام انہیں حقیقی سمجھ کر ان پر لپکتا ہے اور اصل میزائل کام یابی سے اپنے ہدف کونشانہ بنالیتا ہے۔

بعض مغربی ذرایع ابلاغ کا دعوی ہے کہ امریکا کے پاس اب دینے کو مزید میزائل بھی نہیں بچے ہیں اور ایسے میں ایشیا پیسیفک کمانڈ کے افسران اب سوال کر رہے ہیں کہ اگر چین سے کشیدگی بڑھتی ہے تو ہم دفاع کس سے کریں گے؟ سب کچھ اسرائیل پر قربان ہوچکا ہے۔ یو ایس ایس نمتز جیسے بحری بیڑے کو بھی مشرقِ وسطیٰ منتقل کر دیا گیا ہے، جس سے پورے جنوبی چین کے سمندر کا دفاع کم زور پڑ گیا ہے۔

خود امریکا میں اب ایسی باتیں ہورہی ہیں کہ صدر کی ’’گولڈن ڈوم‘‘جیسی باتیں محض خواب ہیں۔ جس منصوبے پر175ارب ڈالرز خرچ کرنے کی بات ہو رہی ہے، وہ ٹیکنالوجی ابھی وجود ہی نہیں رکھتی، اور اگر وہ نظام بن بھی گیا تواس میں کئی دہائیاں لگیں گی اور اس کی قیمت کھربوں ڈالرز تک جا پہنچے گی۔

ایران کی فضائی و خلائی فورس کے قائد، امیر علی حاجی زادہ ، جو اسزائیل کے حالیہ حملے میں اپنے ملک پر قربان ہوگئے، انہوں نے ایک مرتبہ ’’فتاح‘‘ میزائلوں کے بارے میں کہا تھا کہ ہر فتاح میزائل کی قیمت صرف 2 لاکھ ڈالرز ہے، اور دشمن کو اسے تباہ کرنے کے لیے ایک کروڑبیس لاکھ ڈالرز کا میزائل استعمال کرنا پڑتا ہے۔ 

اب بعض عسکری ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی پھر بھی ایرانی میزائل نہیں مار پاتے، حالاں کہ وہ ایک میزائل کو روکنے کے لیے آٹھ آٹھ راکٹ فائر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چلیں آٹھ نہیں، تین کے حساب سے دیکھ لیں۔ ایک حساب اور کر لیں، اگر ایران دو سو راکٹ مارتا ہے تو اسرائیل ان راکٹوں کو روکنے کے لیے کتنی تعداد میں راکٹ فائر کرے گا اور کل تعداد کے کتنے ڈالرز بنیں گے۔

امریکا کے اندر سے اٹھنے والی جنگ مخالف آوازیں

بعض امریکی تجزیہ کار اب یہ تک کہنے لگے ہیں کہ مسئلہ صرف نظام کا نہیں، قیادت کا ہے۔ صدر کی ناتجربہ کاری اور عدم واقفیت کی قیمت اسرائیلی عوام چکا رہے ہیں اور ان سے کوئی ہمدردی بھی نہیں رکھتا، کیوں کہ انہوں نے غزہ میں ڈیڑھ برس سے کیا کچھ نہیں کیا؟ 

ہزاروں معصوم فلسطینی، عورتیں، بچے قتل کیے گئے، اور دنیا خاموش رہی۔ اب ایران نے جو جوابی کارروائی کی ہے، اس میں ٹارگٹڈ حملے ہورہے ہیں، لیکن اسرائیل اب بھی اندھادھند بم باری کر رہا ہے۔ ایک ہی عمارت میں 26 بچوں سمیت 60 افراد شہید کر دیے گئے، مگر دنیا خاموش ہے۔

اب خود مغرب سے ایسی آوازیں آرہی ہیں کہ یہ وہی اسرائیل ہے جواپنی فوج کو دنیا کی سب سے زیادہ ’’اخلاقی‘‘ فوج قرار دیتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ بدترین درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، انہوں نے بغیر کسی قانونی جواز کے ایران پر حملہ کیا، اقوامِ متحدہ کا قانون اور بین الاقوامی ضابطے، سب پامال کر دیے گئے۔ ایران نے جو جوہری معاہدہ کرنے کی تیاری کی تھی، اس پر بھی پانی پھیر دیا گیا۔ ایران نے IAEA کے ساتھ مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

یہاں تک کہ وہ امریکی معائنہ کاروں کو بھیاپنے ہاں آنے دینے پر آمادہ تھا۔ لیکن امریکی صدر نے ان کے اعتماد کو دھوکا دیا۔ ایران کو لگا کہ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، لیکن پسِ پردہ ان کی مذاکراتی ٹیم ہی مار دی گئی۔ شمع خانی سمیت وہ سب لوگ، جنہوں نے ایران کو امن کی راہ پر لانے کی کوشش کی،ماردیے گئے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا تاکہ ایران کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ یہ حملہ ’’پرل ہاربر‘‘جیسا خفیہ اور بے بنیاد تھا اور امریکی اس جرم کے مرتکب ہوئے۔

اب خود بعض امریکی دانش ور اور عالمی امور کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ بدترین بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کروا رہے ہیں، وہ ناسمجھ، احمق اور لاپروا لوگ ہیں۔ صدر کے اردگرد کوئی سنجیدہ اور باشعور مشیر موجود نہیں۔ وہ ایسے لوگوں سے مشورے لے رہے ہیں جو جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں۔ اور اس جنگ کی قیمت پوری دنیا ادا کر رہی ہے۔

اسکاٹ ریٹر نےکہا ہے کہ روس واضح کر چکا ہے کہ وہ پہل نہیں کرے گا، لیکن اگر امریکا نے ایران پر ایٹمی حملہ کیا تو روس یورپ کو نشانہ بنائے گا۔ یہ خطرہ حقیقی ہے، اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکا کی قیادت اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ صدر کی کم زوری، خود غرضی اور ناقابلِ اعتبار شخصیت کی وجہ سے ہوا۔ 

جو شخص بار بار امن کی بات کرتا ہے، لیکن کسی کے دباؤ میں آ کر جنگ چھیڑ دیتا ہے، وہ راہ نما نہیں ہے بلکہ ایک کم زور، جذباتی اور خودفریبی میں مبتلا انسان ہے۔ دنیا میں جو تھوڑی بہت امید باقی تھی، وہ ان راہ نماؤں کے ذریعے زندہ تھی جو مشرقِ وسطیٰ میں تجارت اور ترقی کی بنیاد پر نیا مستقبل چاہتے تھے، لیکن امریکی صدر نے ان کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ اسکاٹ ریٹر آخر میں سوال پوچھتا ہے کہ ہم، یعنی عام لوگ، کہاں کھڑے ہیں؟ کوئی احتجاج نہیں، کوئی تحریک نہیں۔ گویا سب نے ظلم کو قبول کر لیاہے۔ہم اجتماعی طور پرناکام ہو چکے ہیں۔

پے چیدہ اورپل پل بدلتی صورت حال

حربی و عسکری ماہرین کے مطابق اسرائیل کے حالیہ اقدامات اور ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ اس نے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن ایران کے جوابی حملوں اور تباہ کن میزائلوں سے بچاؤ کا اس کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں ہے، کیوں شاید اسے اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی اب واحد امید یہ ہے کہ امریکا کو اس جنگ میں شامل کیا جائے، بہ راہِ راست فوجی تعاون یا سفارتی دباؤ کے ذریعے ایران کو حملے روکنے پر مجبور کیا جائے۔

تاہم، اب صورت حال اتنی پے چیدہ اور پرخطر ہو چکی ہے کہ خود امریکا کے لیے اس میں مداخلت کرنا ایک منہگا اور ناپسندیدہ سودا بن چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہی غیر متوقع خطرات اس وقت امریکی پالیسی سازوں، خاص طور پر ٹرمپ کی ٹیم، کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

نفسیاتی اور اعصابی جنگ

دنیا بھر میں جب دشمن کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرتا ہے یاکسی طاقت ور دوست سے مدد مانگتا ہے۔ ایسے میں وہ مختلف ذرائع سے لوگوں میں خوف اور دہشت پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کل اس کام کے لیے سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسرائیل اور ایران کے تنازعے میں بھی نفسیاتی اور اعصابی جنگ کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ لیکن یوں محسوس ہورہا ہے کہ ایران کے غیر متوقع رد عمل کے بعد اسرائیل جنگ کے نرم محاذوں پر بھی کافی توجہ دے رہا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اب اچھی طرح یہ پتا چل گیا ہے کہ ایران اتنا وسیع اور بڑا ملک ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر ایران کو نشانہ نہیں بنا سکتا اور اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب 360 مربع کلومیٹر پر محیط غزہ میں وہ اب بھی پوری طرح کام یاب نہیں ہوسکا ہےاور وہاں ہر روز بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ایران کا مجموعی رقبہ 18لاکھ مربع کلومیٹرز ہے۔

اسرائیلی امور کے ایک ممتاز ماہر، عادل شادی، کے بہ قول ایران، اسرائیل میں زندگی کے مختلف پہلوؤں میں خوف پیداکرنے اور خلل ڈالنے کا آپریشن کر رہاہے۔ جس طرح نیتن یاہو نے ایران کے خلاف آپریشن شروع کیا اس لمحے پر اسرائیلی ہر روزلعن طعن کرتے ہیں۔ 

ایران اس سے کئی گنا زیادہ میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جتنے اس نے اب تک فائر کیے ہیں، لیکن وہ اسرائیلی معاشرے کو مسلسل نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ ایران اسرائیل کی ’’ٹیکنالوجیکل برتری‘‘ کو بدنام کر رہا ہے اور ہر حملے کے ساتھ یہ کہنے لگتا ہے کہ آؤ، اپنے تمام دفاع کو تیار کرو، دیکھتے ہیں کہ کیا تم ہمارے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہو؟ آپ کس اسرائیلی فتح کی بات کر رہے ہیں؟ جیت کا دعویٰ کرنے والا امریکا سے مدد نہیں مانگتا۔