ایک ایسا شخص جسے دنیا عقل مند ترین سمجھتی ہو، نوبل انعام سے نواز چکی ہو اور جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہو کہ وہ نہ صرف بہترین فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اِس موضوع پر اُس کی کتاب بائبل کا درجہ رکھتی ہے، اگر آپ کو پتا چلے کہ اُس شخص نے خود کُشی کر لی ہے تو کیا آپ اُس کی دانشمندی کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کر لیں گے؟ میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ڈینیل کاہنمین کا نام میں نے چند سال پہلے سنا تھا جب اُس کی کتاب Thinking Fast and Slow نظر سے گزری تھی، وہ کتاب میں نے پڑھنا شروع کی اور چند نشستوں میں ختم کر ڈالی، نان فکشن کتابوں میں غالباً یہ واحد کتاب تھی جو اِس قدر دلچسپ تھی کہ اسے چھوڑنے کو دل ہی نہیں کیا۔ بعد ازاں میں نے اِس پر ایک مضمون بھی لکھا، میری رائے میں یہ وہ کتاب ہے جو ہر شخص کو بار بار پڑھنی چاہیے، اِس میں ہمارے اُن تعصبات اور رجحانات پر تحقیق کی گئی ہے جن کی بنیاد پر ہم انسان اپنی زندگیوں کے ضروری اور غیر ضروری فیصلے کرتے ہیں، اِس کتاب نے اُس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ انسان چونکہ عقل سلیم رکھتے ہیں اِس لیے ہمارا ہر فیصلہ عقلی اور حقائق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کاہنمین نے کہا کہ گو انسان غیرمنطقی نہیں ہوتے لیکن وہ جذباتی ہوتے ہیں اور اُن کی سوچ باطنی طور پر متضاد ہوتی ہے سو انہیں باآسانی گمراہ کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بعض اوقات وہ خود ہی غیرعقلی فیصلے کرتے ہیں کیونکہ آخری تجزیے میںوہ بہرحال انسان ہیں۔ اسی ڈینیل کاہنمین نے، جسے فیصلہ سازی کا ارسطو سمجھا جاتا تھا، گزشتہ برس مارچ میں فیصلہ کیا کہ اب اسے مزید زندہ نہیں رہنا، سو وہ نیویارک سے پیرس آیا، وہاں اُس نے چند دن اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارے اور پھر وہاں سے تنہا سوئٹزرلینڈ آ گیا جہاں سے اُس نے ایک ای میل لکھی کہ ’’ یہ ایک الوداعی خط ہے جو میں اپنے دوستوں کو یہ بتانے کیلئے بھیج رہا ہوں کہ میں سوئٹزرلینڈ جا رہا ہوں، جہاں میری زندگی 27 مارچ کو ختم ہو جائے گی۔‘‘ یاد رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں ایسے مراکز موجود ہیں جنہیں قانونی طور پر اجازت ہے کہ وہ کسی بھی بالغ شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے میں مدد دے سکیں، انہیں ’’سہولت مراکز موت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ”گورے“ نام خوب رکھتے ہیں، خوفناک بات کو بھی ایسا دلکش نام دیتے ہیں کہ بندہ کھنچا چلا آئے۔ کاہنمین نے ایسے ہی ایک مرکز میں گزشتہ برس اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جب اُس کی عمر نوّے برس تھی۔ یہ پوری روداد وال سٹریٹ جنرل اوہ معاف کیجیے گا وال سٹریٹ جرنل نے (نہ جانے کیوں آج کل جنرل منہ پر چڑھا ہوا ہے) چند روز پہلے شائع کی ہے۔ اخبار میں نہ صرف کاہنمین کی ای میل شامل ہے بلکہ یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے سب سے دانشمند شخص کا یہ فیصلہ کتنا دانشمندانہ تھا! اِس ضمن میں اخبار نے مختلف ماہرین کی رائے لی ہے اور خود کاہنمین کی کتاب کے حوالے دیے ہیں جن کے مطابق انسان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کیا کیا باتیں سوچنی چاہئیں اور پھر سوال اٹھایا ہے کہ کیا کاہنمین نے وہ تمام باتیں سوچیں؟
مجھے یوں لگتا ہے کہ ڈینیل کاہنمین کے فیصلے پر دنیا اِس لیے حیران ہے کہ اُس نے اپنی زندگی وقت سے پہلے ’’خواہ مخواہ‘‘ ختم کر لی جبکہ وہ بھلا چنگا تھا، ذہنی اعتبار سے چوکس تھا، گو کہ ریٹائر تھا مگر پڑھنے لکھنے کا کام کرتا رہتا تھا۔ اِس فیصلے کو بعض لوگ غیر دانشمندانہ شاید اِس لیے سمجھیں کہ زندگی کا خاتمہ کرنا، جبکہ اُس میں کوئی خاص مسئلہ بھی نہ ہو، بہرحال منطقی یا عقلی بات نہیں، زندگی تو جتنی جی لی جائے کم ہے۔ لیکن ہر فیصلہ خالصتاً کسی فائدے یا نقصان کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا جاتا، جیسے کہ کاہنمین نے خود کہا کہ انسان جذباتی ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن کی بدولت انسان اعلیٰ ادب تخلیق کرتا ہے اور محبت کی داستانیں رقم کرتا ہے۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے ایسی محبتیں کرتے ہیں جن میں سراسر گھاٹا ہوتا ہے مگر جذبات آڑے آ جاتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کی کوئی منطق ہمیں قائل نہیں کر سکتی کہ اِس محبت میں نقصان ہوگا لہٰذا یہ سودا نہ کرو۔
جو فیصلہ کاہنمین نے کیا اگر وہ کوئی نا معلوم ارب پتی کرتا تو شاید ہمیں اتنی حیرت نہ ہوتی،کاہنمین کے فیصلے سے اِس لیے حیرت ہوئی کہ اپنی زندگی ختم کرنے کے فیصلے میں ایک ڈیفالٹ منفی پہلو پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو کاہنمین کا فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا۔ لوگوں کو اِس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ جسے وہ ایک عالی دماغ شخص سمجھتے تھے اور جس نے فیصلہ سازی کے موضوع پر معرَکَۃ اْلآرا کتاب لکھی، وہ شخص بھلا خودکشی کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے۔ اِس حیرت میں دراصل یہ ’’غلط فہمی‘‘ مُضمِر ہے کہ کاہنمین نے ’’خودکشی‘‘ کی، گو کہ کاہنمین نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر یہ اُن معنوں میں خودکشی نہیں تھی کہ اُس نے کنپٹی پر گولی مار لی یا دریا میں کُود کر جان دے دی۔ یہ درست ہے کہ اُس نے خود زہر نہیں کھایا بلکہ سوئٹزرلینڈ جا کر کسی ڈاکٹر کو کہا کہ وہ اسے پُرسکون موت کا ٹیکہ لگا دے مگر بہرحال اِس موت میں اور خودکشی میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے۔ خودکشی انسان تب کرتا ہے جب وہ حالات کے سامنے بے بس ہو جائے یا اُس کا ذہنی تناؤ بے قابو ہو جائے۔ غربت، محبت میں ناکامی، ڈپریشن، خوف، ذلت یا ایسے کسی اور جذبے کے تابع انسان عموماً خودکشی کرتے ہیں، اور یہ فیصلہ اچانک ہوتا ہے، اگر انہیں اُس لمحے مدد مل جائے یا انہیں روک لیاجائے اور کہا جائے کہ تم آج سے ایک ماہ بعد خود کشی کر لینا تو شاید اُن میں سے اکثریت یہ کام نہ کرے۔ اِس کے برعکس ڈینیل کاہنمین نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت اپنی زندگی ختم کرنے کی ایک تاریخ مقرر کی اور کہا کہ 27 مارچ میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ جب اُس کے دوستوں کو اِس فیصلے کا علم ہوا تو انہوں نے کاہنمین کو باز رکھنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہے اور بالآخر ہمارے دور کا یہ عظیم دانشور گزشتہ برس دنیا سے سِدھار گیا، لیکن اپنی کتابوں میں وہ آج بھی زندہ ہے اور ہم انسانوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے اصول بتا کر امر ہو گیا ہے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔