پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کبھی اپنی مسابقتی قیمتوں کی وجہ سے بین الاقوامی خریداروں کیلئے سب سے پہلا انتخاب ہوتی تھی۔ تاہم بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے پیداواری لاگت میں اضافہ اتنا زیادہ کر دیا ہے کہ انڈسٹری کیلئے بین الاقوامی مارکیٹ میں خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ چند سال کے دوران صورتحال میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے جسکی وجہ سے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہے اور پہلے سے موجود انڈسٹری کو اپنی مشینری اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ اسی طرح کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی نے بھی انڈسٹری کی مسابقتی پوزیشن کو متاثر کیا ہے اور اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زیادہ تر انحصار بیرون ملک سے درآمد کئے جانیوالے یارن پر ہے۔ تاہم اس حوالے سے بھی ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم میں ہونیوالی حالیہ تبدیلیوں کے بعد سے صورتحال غیریقینی کا شکار ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو عالمی منڈی میں مسابقت کے حوالے سے درپیش مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ برآمدی مصنوعات میں تنوع نہ ہونا ہے۔ اس سلسلے میں بعض مل مالکان ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم جب تک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے شعبے میں حکومت، انڈسٹری اور ایکڈیمیا کے مربوط تعاون کو ایک مستقل شکل نہیں دی جاتی کوئی بڑی پیشرفت یا تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ویلیو ایڈیشن کے حوالے سے بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا سفر سست روی کا شکار ہے۔ اگرچہ ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدی صنعت کا زیادہ انحصار یورپی یونین اور امریکی منڈیوں پر ہے لیکن وہاں بھی نئی مصنوعات متعارف کروانے کے حوالے سے پاکستانی برآمد کنندگان کافی پیچھے ہیں۔ اس حوالے سے متعلقہ حکومتی ادارے بھی ذمہ دار ہیں جو کروڑوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود بیرون ملک ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعات کی مانگ بڑھانے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کر سکے ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کے اندر جاری سیاسی تناؤ اور وزارت خزانہ و ایف بی آر کے سخت اقدامات کی وجہ سے برآمدی صنعتیں مزید دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ اس وقت محصولات کی وصولی کا سب سے زیادہ بوجھ برآمدی صنعتوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایسے میں ہم مقامی صنعتوں کی ترقی یا برآمدی مصنوعات میں تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے حوالے سے بہتری اور اضافے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے رواں سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں دوبارہ کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ برآمدی ہدف کا حصول بھی مشکل ہو جائیگا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ مسائل کسی ایک حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ طویل عرصے سے ٹیکسٹائل کی واضح پالیسی نہ ہونے اور فیصلہ سازی میں اہم اسٹیک ہولڈرز کو حصہ نہ بنانے کی وجہ سے ہم اپنی سمت ہی کھو چکے ہیں۔ ٹیکسٹائل برآمدات کے حوالے سے اگرچہ سال 2024ء میں سال 2023ءکی نسبت بہتری آئی ہے لیکن عملی طور پر پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات تاحال 2022ءکی سطح کے آس پاس ہی ہیں۔ ان مشکل حالات میں بھی نٹ وئیر، گارمنٹس اور ہوم ٹیکسٹائل کے ذیلی شعبہ جات نے برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ اگر ٹیکسٹائل سیکٹر میں ویلیو ایڈیشن پر خصوصی توجہ دی جائے تو نہ صرف مختصر عرصے میں پاکستان کی برآمدات میں قابل ذکر اضافہ ممکن ہے بلکہ اس سے مقامی سطح پر روزگار کی فراہمی بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔ تاہم رواں سال کے پہلے دو ماہ کے دوران برآمدات میں اضافے کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا ہے۔ محکمہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فروری 2025ءمیں پاکستان کا تجارتی خسارہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 34.59 فیصد اضافے سے 2.32 ارب ڈالر ہو گیا ہے جبکہ ماہانہ بنیاد پر یہ خسارہ جنوری 2025ءکے 2.30 بلین ڈالر کے مقابلے میں 0.52فیصد زیادہ ہے۔ اس وقت بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زیادہ تر یونٹس اپنی مجموعی پیداواری استعداد سے کم پر چل رہے ہیں اور ان کی شرح نمو میں ابھی وہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے جس کے عالمی سطح پر مواقع موجود ہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈسٹری کو حکومت کی طرف سے وہ سپورٹ یا تعاون تاحال میسر نہیں آ سکا ہے جس کی اسے اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ حکومت نے 2024ء میں شرح سود کو مرحلہ وار 22سے فیصد سے کم کرکے 12فیصد کرکے کسی حد تک انڈسٹری کو درپیش مسائل میں کمی لانے کی کوشش کی ہے لیکن اب بھی پاکستان میں شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اسلئے جب تک شرح سود کو دس فیصد سے کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر نہیں لایا جائیگا انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکے گا۔ علاوہ ازیں ایکسپورٹ انڈسٹری کے زیر التوا ریفنڈز کی ادائیگی کا عمل تیز کرنے کیلئے ریفنڈ کی 72 دن میں ادائیگی یقینی بنانے کیلئے تشکیل دیئے گئے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں برآمدات بڑھانے اور ان میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم کو جاری رکھنے اور مقامی سپلائی پر زیرو ریٹنگ کی سہولت بحال کرنے کیساتھ ساتھ انڈسٹری کو مسابقتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنانے اور کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ بنیادی اقدامات ہیں جن کو کئے بغیر عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا شیئر بڑھانا ممکن نہیں ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات سے متعلق تمام نمائندہ تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے ایک طویل المدت ٹیکسٹائل پالیسی تشکیل دے تاکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنا کر پاکستان کو دوبارہ سے بین الاقوامی خریداروں کی پہلی ترجیح بنایا جا سکے۔