دہشت گردانہ حملوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام اخلاقی اور شرعی ہر اعتبار سے ناقابلِ معافی جرم ہے۔ کو ئی بھی اس کی حمایت نہیں کرسکتا۔ حضرت ابوالدردا ؓکہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:’’اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ سب گناہ معاف فرمادیں گے سوائے اس شخص کے جو شرک کی حالت میں مرے یا وہ مسلمان جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کیا ہو۔‘‘ (بحوالہ سنن ابی داؤد، حدیث نمبر :4272) قارئین !پس منظر و پیش منظر کے طور پر یاد رکھیں کہ 16دسمبر 2015ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر بزدلانہ و دہشت گردانہ حملوں کے بعد جو متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اگر اس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد ہوجاتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات کا اگر طائرانہ جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے ان میں سے اکثر پر کسی نہ کسی صورت میں عمل کیا جا رہا ہے، لیکن بعض شقوں پر ذرہ بھر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اسکی وجوہات میں سے ایک وجہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ ہر پارٹی اپنوں کو بچانا اور دوسروں کو پھنسانا چاہتی ہے۔ اختیارات کی کھینچا تانی ہے۔ ذاتی مفاد ات کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جارہی ہے۔
دوسری بڑی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ علماء اور مقتدرہ میں قدرے دوریاں ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کے بعد عوام میں اثر و رسوخ رکھنے والے علماء کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ مائنڈ سیٹ بدلنے کااہم کام نہیں کیا گیا۔ عسکری تنظیموں سے وابستہ ہزاروں کارکنوں اور لاکھوں ہمدردوں کے برین واش کا مشکل ترین فریضہ علماء ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ دیکھیں! 1970ء کے بعد جب سوویت یونین کی شکست و ریخت کا فیصلہ کیاگیا تو دنیا بھر خصوصاً عرب ممالک کی مسلم تنظیموں سے خفیہ اور علانیہ رابطہ علماء کے ذریعے ہی کیا گیا۔ عوام کی ذہن سازی کے لئے نسیم حجاز ی کے ناولوں پر ڈرامے بنواکر ٹی وی پر چلوائے گئے۔ حکومت نے علماء سے کہا وہ جہاد کی فضیلت اور اہمیت کو اُجاگر کریںمحراب و منبر نے جہادی فضا بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ آئمہ مساجد جمعے کے خطبوں میں اس موضوع پر تقریریں کرنے لگے۔ آخرکار سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ سانحۂ پشاور کے بعد شروع کی گئی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کی مہم میں بھی ایک اہم ترین بات کو فراموش کیا جارہا ہے، وہ ہے بزرگانِ دین، مشایخ عظام، آئمہ مساجد، علمائے کرام اور روحانی مراکز کاکردار۔ عوام میں علماء، مشائخ اور روحانی بزرگوں کا گہرا اثر و رسوخ تھا اور ہے۔میڈیا کے ذریعے تو دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے، لیکن محراب و منبر اور علماء کے کردار کو بالکل فراموش کر دیا گیاہے، حالانکہ جتنی ذہن سازی علماء کرسکتے ہیں اتنی کوئی اور نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حکومت کے کرنے کا ایک بڑا اور اہم کام یہ ہے کہ ملک بھر کے جید علمائے کرام اور ائمہ مساجد کے ذریعے ان کی ذہن سازی کروائیں۔ پاکستان کی 95 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہر مسلمان ہفتے میں ایک دو بار لازمی مسجد جاتا ہے، کم از کم جمعے کی نماز کے لئے تو مسجد جاتا ہی ہے۔ اگر حکومت ملک بھر کے جید علماء اور عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والے علماء و مشائخ کو جمع کرے، ان کے سامنے حالات رکھے، ان سے راہنمائی طلب کرے، ان سے تجاویز مانگے اور عوام کی ذہن سازی کا کام ان کے ذمے کردے تو جلد ہی حالات میں بہتری آسکتی ہے۔ انفرادی طور پر تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علماء پاکستان میں مسلح جد و جہد کو حرام قرار دے چکے ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کی بھی تمام علماء نے مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پوری قوم سفاک مجرموں کے خلاف متحد ہو جائے۔ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے اور قیامِ امن میں علمائے کرام، مشائخ عظام اور روحانی مراکز سے مدد لیں۔ یہ محبِ دین اور محبِ وطن علماء حکومت کا بھرپور ساتھ بھی دیں گے اوردہشت گردی کے خلاف فکری اور نظریاتی جنگ بھی لڑیں گے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جو جامع میکنزم وضع کیا گیا ہے اس میں جید علماء کو بھی شامل کیا جائے تاکہ علماء دہشت گردی کے خلاف فکری اور نظریاتی جنگ لڑنے کا مشکل فریضہ باآسانی سر انجام دے سکیں۔