• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب بہت کچھ واضح ہوتا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کار کون اور کہاں ہیں۔ یہ بھی کہ بلوچستان کے عوام کے حقوق و خوشحالی اور وہاں ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے کون ہیں اور انکے مقاصد کیا ہیں۔ ریاست کو للکارنے والوں اور دہشت گردوں کا ایجنڈا ایک ہے۔ یہ حقوق کے نام پر سادہ لوح عوام کو مشتعل کرتے ہیں پھر احتجاج کے نام پر ان احتجاجیوں کی وڈیوز بناکر بیرون ملک بھیجتے ہیں۔ لاپتہ افراد کے نام پر جھوٹا واویلا کرتے ہیں۔ دہشت گرد دوسرے صوبوں کے مزدوروں اور مسافروں کو جو بے قصور ہوتے ہیں ،قتل کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بلوچستان کے رہنے والے غریب مزدوروں کو بھی بعض اوقات نشانہ بناتے ہیں تاکہ عوام مشتعل ہوکر احتجاجیوں کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ دہشت گرد خصوصی طور پر ان لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو بلوچستان میں ترقی کیلئے کسی بھی چھوٹے بڑے منصوبے پر مزدوری کرتے ہوں۔ دہشت گرد اپنے مقامی سہولت کاروں کی مدد سے ایک طرف صوبے میں خوف و دہشت کی فضاقائم رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہاں منصوبوں کو بند کراکر بلوچستان کے عوام کی خوشحالی اور ان کے حقوق کا قتل کرتے ہیں۔ بے گناہوں کا خون بہاکر ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کی کوشش کرنے والے مفسدین، گمراہ اور انسانیت کے دشمن اور قاتل ہیں۔

بی ایل اے نامی دہشت گرد تنظیم کے حمایتی نہ صرف بلوچستان میں رہتے ہوئے ان کے بعض رشتہ دار ہیں بلکہ ان میں چند سیاستدان، بعض سردار اور بعض میڈیا پرسنز بھی شامل ہیں جو ان کی حمایت کرتے ہیں۔ دراصل یہ ایک پوری چین ہے ورنہ کسی دوسرے شہر سے آکر کسی شہر میں چور چوری نہیں کرسکتے جب تک وہاں ان کے حمایتی اور سہولت کار موجود نہ ہوں چہ جائیکہ پڑوسی ملک کی پناہ میں رہنے والے دہشت گرد بلوچستان کے پہاڑوں اور صحرائوں سے گزر کر کسی سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنائیں جبکہ یہاں نہ انکے سہولت کار ہوں نہ حمایتی اور خفیہ مقامات پر پناہ دینے والے ہوں۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان یکجہتی کمیٹی اور سردار اختر جان مینگل کو اب تک بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے معصوم اور غریب پاکستانی شہری اور وطن کی حفاظت پر مامور سیکورٹی اداروں کے شہداء نظر نہیں آتے۔ ان لوگوں نے کیا کبھی ان واقعات پر ایک لفظ مذمت کا کہا ہے۔ کیا ان لوگوں نے کبھی دہشت گردوں کے خلاف کوئی احتجاج کیا ہے.... کبھی بھی نہیں!!!

حالیہ دنوں میں بی وائی سی کے مشتعل کئے گئے احتجاجیوں نے ڈسٹرکٹ ہسپتال کوئٹہ پر دھاوا بولا اور وہاں شناخت کیلئے رکھے گئے جعفر ایکسپریس واقعہ میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو چھین کر ساتھ لے گئے جن میں سے تین لاشوں کو پولیس نے واپس لے کر ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیا۔ جعفر ایکسپریس کےاندوہناک واقعہ نے پوری قوم کو اداس کیا لیکن دہشت گردوں کے حمایتوں نے مذمت کا ایک لفظ تک نہیں بولا۔ اسی واقعہ میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو چھین کر لے جانے والوں کے بارے میں اور کیا ثبوت چاہئے کہ یہی لوگ دہشت گردوں کے قریبی رشتہ دار، حمایتی اور سہولت کار ہیں لیکن شاباش ہے بلوچستان کی بی این پی سمیت کسی سیاستدان اور سردار نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سب کی زبانیں بند ہیں۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ ڈر اور خوف کی وجہ سے یا کوئی اور معاملہ ہے۔ ریاست کے خلاف بیان بازی پر توکئی ہر وقت تیار ہوتے ہیں لیکن دہشت گردوں اور ان کے حمایتوں و سہولت کاروں کے خلاف کوئی ایک بیان تک جاری نہیں کرتا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی بعض سیاستدان بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردوں کے خلاف احتجاج تو دور کھل کر کوئی بات نہیں کرتے لیکن اس سے بھی حیرتناک بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کھل کر سیکورٹی اداروں بالخصوص پاک فوج کے ساتھ اس طرح مکمل یکجہتی کا اظہار نہیں کرتے جو پاک فوج کا حق ہے اور بعض تو اس حد تک جاتے ہیں کہ ایسے واقعات کو سیکورٹی لیپس اور ناکامی بیان کر تے ہیں۔

یہ تو شکر ہے کہ ایسے لوگوں کو جو مٹھی بھر ہیں چھوڑ کر باقی پوری قوم پاک فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل بعض لوگ بھی دہشت گردوں اور ان کے حمایتوں و سہولت کاروں کے خلاف پورے ملک خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آپریشن کی برملا مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے تمام سیاستدانوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے کیا یہ چاہتے ہیں کہ وطن دشمنوں اور بے گناہوں کے قاتلوں اور وطن کے محافظوں کو شہید کرنے والوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ جو مرضی کریں اور ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کو انسانی حقوق سے جوڑ کر ریاست کو بدنام کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا جائے۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوسکتا کہ ملک کو ایسے لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جائے۔ پاکستان ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا اور ترقی کا جاری سفر منزل پر پہنچنے تک جاری رہے گا البتہ دہشت گرد جو دین اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں نیست و نابود کردیئے جائیں گے لیکن قوم کا یہ سوال ہے جس کا جواب ملنا چاہئے کہ دہشت گردوں کے حمایتوں اور سہولت کاروں کے خلاف عملی اقدامات اور ٹھوس کارروائی کب جائے گی؟ کیا ملک میں مسنگ پرسنز اور انسانی حقوق کے نام پر برپا یہ ڈرامے چلتے رہیں گے جن کا مقصد بیرونی آقائوں کی خوشنودی اور ڈالرز کمانا ہے۔ اب سوچنے کی گنجائش نہیں ہےبلکہ مزید تاخیر سے ملک کی تباہی (خدانخواستہ) کے ایسے لوگوں کے خواب پورے ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اب فیصلہ کن کارروائی کا وقت ہے۔

تازہ ترین