جی وزیر اعظم صاحب،آپ کا یہ اعتراف نصف ہی سچ ہے کہ ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے تبدیلی نا گزیر ہے ۔لیکن آپ کایہ کہنا درست نہیں کہ نظام میںتبدیلی ناگزیر ہے ، نظام میں نہیں جناب نظام کی تبدیلی ناگزیر ہو گئی ،اس نظام کی جسے آپ نے بارہ سال قبل الیکشن 13کی انتخابی مہم میں گلاسڑا قرار دےکر تواتر سے یہ بیانیہ بنایا تھا کہ یہ نظام عوام دشمن ہے جو نہیں چلے گا اس کیلئے یہ گلے سڑے کے الفاظ آپ کے اپنے جوش خطابت میں ہم نے کئی بار سنے، جو بلاشبہ کلمہ حق تھا آپ کی ترنم سےپڑھی حبیب جالب کی نظمیں بھی ہمیں یاد ہیںآج وہ نظام جو حقیقت میں عشروں سے طاری و جاری نظام بد ہی تو ہے جو اپنی مزید بدترین شکل میں عوام کیلئے تو کسی طور قبول نہیں جس میں دو روایتی پارٹیوں کے باری باری بغیر کسی شدید مطلوب تبدیلی کے اقتدار میں آنا ہی نظام بن گیا تھا جو چارٹر آف ڈیموکریسی کا شاخسانہ ہے اسے پاکستانی قوت اخوت عوام8 فروری الیکشن 24میں اپنے ووٹ کی طاقت سے اکھاڑ چکی یہ کوئی فقط حکومت کی تبدیلی کا ووٹ ہی نہیں تھا بلکہ عوامی مینڈیٹ انتہائی نامساعد حالات میں جس میں فسطائیت کا ذہنی و جسمانی تشدد بھی شامل تھا کی بیخ کنی کا ووٹ تھا اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا جس میں رجیم چینج کیلئے بیرونی مداخلت اور ہارس ٹریڈنگ کی گنجائش اور مارائےآئین حکومتوں کے قیام اور جاری وساری رہنے کی گنجائش عوامی مرضی و منشا کو الٹ پلٹ کر کوئی ٹیلر میڈاسمبلی اور بنائی جاسکتی ہے آئین کا حلیہ ہی نہیں پورا عدالتی ڈھانچہ اپنے ڈھب کا بنانے کیلئےآئین میں 26ویں ترمیم منظور کراسکتی ہے جس میں بھاری بھر کم عوامی مینڈیٹ کو ٹھکانے لگانےکیلئے نظام بد کے سب سے بڑے فیچر موروثی اقتدار کا دفاع انتخابی فتح کو ہار میں تبدیل کرکے کیا جاسکتا ہے اور اس حق احتجاج کو غصب کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف جن حالات میں اور جس طرح دو مرتبہ ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی منصب پر فائز ہوئے ہیں وہ ملکی آئین سے ماورا اس مسلط نظام کا حصہ نہیں؟جس میں ملکی وسائل اور اختیارات عوام سے چھین کر خود حکمرانوں اور ان سے جڑے اس مافیا راج کیلئےاتنی ہی دیدہ دلیری سے وقف ہیں جتنے عوام قرضوں، ٹیکسوں، بدانتظامی اور غیر آئینی حربوں ہتھکنڈوں حربوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔آئی پی پیز کے کھلم کھلا عوام دشمن معاہدوںسے اڑھائی عشروں پر محیط لوٹ مارسے کرپشن کی دلدل میں دھنسی گورننس بے نقاب نہیں ہوئی ؟آپ نے اسی حکومتی روایت اور اپروچ کو دہراتے ہوئے وزیراعظم بنتے ہی عوام کو کڑوی گولیاں نگلنے کا درس جو دینا شروع کیا تھا اور فقط 34ارب روپے ٹیکس ریکوری سے آپ دن بدلنے کی اچھی شروعات کا لولی پوپ عوام کو دیا تھا ۔آپ کو اقتدار سنبھالتے ہی آئی پی پیز کی ا تنی بڑی ڈکیتی کا علم کیوں نہ ہوا اور آپ نے ان کے فرانزک آڈٹ کے بعد ریکوری کیوں نہ کرائی ؟ رجیم چینج کے بعد آپ کے ہاتھوں آٹے کی تقسیم میں 20ارب کی چوری کے الزامات کی کوئی تردید ہوئی نہ تحقیق کہ اتنے سنگین معاشی بحران اور غریبوں کی حالت زار میں بھی غریب ترین لوگوں کو رمضان میں تقسیم کئے گئے آٹے کے 20ارب روپے جناب شاہد خاقان عباسی کے لگائے الزامات کے مطابق چوری ہو گئے وہ ریکور نہ ہوئے اور جو گزشتہ سال عین گندم کی فصل آنے سے چند ہفتے قبل یوکرین سے اربوں روپے کی گندم ڈالروں میں جنگ زدہ یوکرین سے آنے کا کیا ماجرا تھا ۔چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ نگران حکومت کا ہی ’’کارنامہ ‘‘ تھا تو آپ جو ایک ایک ڈالر کا حساب کرنے اور بچانے کی بات کرتے رہے دوسری بار وزیر اعظم بننے پر آپ لاکھوں کسانوں کے ساتھ ہو گئے اتنے بڑے ناقابل معافی انتظامی ڈیزاسٹر کا آڈٹ اور تحقیقی رپورٹ کہ قومی معیشت اور کسانوں کے روزگار پر اتنا بڑا حملہ کیسے اور کس نے کیا ؟ پر خاموش کیسے رہے یہ ملک اسی نظام بد کا کھلواڑ نہیں ؟جس میں تبدیلی لاکر آپ ناگزیر مطلوب تبدیلی کا اعتراف کرکے اب بھی پورے نظام کو بدلنے کی بات نہیں کر رہے بلکہ اسے ہی برقرار رکھتے ایک ایک کیس کی اصلاح و مداوے کا یقین کرا رہے ہیں گورننس کے اتنے طویل تجربے کے بعد آپ کا کابینہ میں یہ بیان موجود نظام بد جس نے پاکستان کو دنیا میں نکوبنا کر رکھ دیا ہے حقیقت میں اس کا دفاع نہیں تو اور کیا ہے ؟اور یہ جو حکومتی ابلاغ سے تنخواہ دار طبقے کو آئندہ مالی سال میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے نہ کرنے کی خبروں سے خوراک کے بجٹ پر بھی سرکاری ٹیکس کے بوجھ میں دبے تنخواہ داروں کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے جبکہ جمبو سائز کابینہ اور برائلرپالیمان کے ارکان کی تنخواہوں میں سینکڑوں فیصد اضافہ اور اپنے قرض ٹیکس ریکوری کی ہر حکومتی کوشش کو بھی سبوتاژ کرنے والے ایف جی آر کے عملے کو اربوں روپے کی کاریں تقسیم کرنے کا مطلب کیا ہے ؟
جناب وزیر اعظم !یہ سب کچھ تو عوام کی محال و مشکل ہو گئی دال روٹی کے حوالے سے نظام بد کا شاخسانہ ہے اس نے تو آئین ہی لپیٹ دیا ہے اور اس کے مہلک پے درپے انتظامی ڈیزاسٹر سے دو ملکی صوبے پر آشوب ہو گئے بلوچستان میں دہشت گردی واپس لوٹ آئی اور داخلی تنازعات نے ملکی سلامتی کے نئے خطرات پیدا کر دیئے عدالتی نظام منجمد ہو کر رہ گیا ملک سے سماجی انصاف کی حالت کم ترین درجے پرآ گئی ہے پاکستان کے تمام تر پوٹینشل خواص و امتیازات کی موجودگی کے باوجود ملک کا عالمی تشخص تشویشناک حد تک گر کر جملہ انواع کے خساروں کا باعث بن رہا ہے کوئی راہ نہیں کہ معمول کا ہی ساقط ہوا آئینی و سیاسی عمل بحال کرکے قوت اخوت عوام کے حاصل مین ڈیٹ سے استحکام اور پارلیمانی قوت حاصل کرکے اس نظام بد کو تیز ترین اور جامعہ قانون سازی سے اکھاڑ پھینکا جائے کسی بے قابو انقلاب کو بیل بنا کر نہ بلایا جائے یہ نظام وہ ہرگز نہیں جو کسی بحران میں خلا پر کرنے کے کام آجاتا ہے، یہ نظام ملک کو نقصان اور عوام کو دکھ پہنچا رہا ہے اس میں تبدیلی کرکے تبدیلی نہیں لانی، اس کو جڑ سے اکھاڑ کر آئینی بالادستی کو ہی استحکام و ترقی کا ذریعہ بنانا ناگزیر ہو گیا ہے۔وماعلینا الابلاغ