لاہور میں پاک انڈیا دوستی کے بارے میں مقامی ہوٹل میں مکالمہ ہوا۔ اس مکالمہ کے روح رواں سابق وزیر خارجہ میاں خورشید قصوری تھے اس مکالمے میں انڈین نیشنل سی این این ایشیا کے سابقہ بیورو چیف ستیش رائے مہمان خصوصی تھے۔اس تقریب میں سابق جرنیلوں، بیوروکریٹس ، اعلیٰ سرکاری افسران ،پاکستان کے نامور صحافیوں کے علاوہ ہر مکتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور یہ مکالمہ چار بجے دوپہر سے چل کر افطار ڈنر تک جاری رہا۔ اس میں خطاب کرتے ہوئے میاں خورشید محمور قصوری نے کہا پاکستان اور بھارت میں جب تک اچھے تعلقات کا قیام نہیں ہوتا اس وقت تک ایشیا میں امن اور سکون کی ہوا نہیں چلے گی۔ پاکستان اور بھارت کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک ساتھ کام کریں ہم ایک دوسرے سےمیل ملاقاتیں کریں ۔معاشرتی سطح کے علاوہ بھی ہر سطح پر ہمارا آپس میں لین دین ہو لیکن بھارت کے کٹر ہندو حکمران نریندر مودی کسی بھی مرحلے پر پاکستان سے دوستی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے بھارت میں صرف اور صرف ہندو ووٹرز کو اپنے پیچھے لگا یا ہوا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو جب انڈین وزیراعظم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں تو وہ پاکستان کی طرف سے دوستی کے لیے بڑھایا گیا ہاتھ کیسے تھامیں گے ؟اس تقریب میں انڈین نژاد صحافی و کالم نگار سابق سائوتھ ایشیا سی این این کے ستیش رائے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں میاں خورشید محمود قصوری کی اس بات پر متفق ہوں انڈیا اور پاکستان کے لوگ آپس میں ملنا چاہتے ہیں ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تجارت کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارتی حکمران پاکستان سے دوستی کو گھاٹے کا سودا قرار دیتے ہیں، اس ڈائیلاگ میں مختلف صحافیوں اور دیگر مکتب فکر کے لوگوں نے سوالات کیے جن کا جواب میاں خورشید محمود قصوری اور ستیش رائےنے دیا ۔اس موقع پر دیکھنے والی ہر آنکھ یہ چاہتی تھی کہ اس سیمینارکی تمام باتوں پر خدا کرے کہ بھارت اور پاکستان کے حکمران مل کر کام کریں تو بعید نہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔ اس موقع پر میں یہ ذکر کرنے میں حق بجانب ہوں انڈیا تو بگڑا ہوا بچہ ہے وہ تو سالہا سال سے پاکستان سے دوستی نہ کرنے کے بہانے بنائے جا رہا ہے اور اس پر قائم ہے جب کہ صدر پرویز مشرف کے دور میں جب میاں خورشید محمود قصوری وزیر خارجہ تھے تو پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں ایک ایسا موڑ آیا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل
کرنے کے لیے ڈرافٹ تیار ہو چکا تھا بس دستخط باقی تھے کہ نہ جانے بھارتی حکمرانوں کو کیا ہوا انہوں نے انکار کر دیا ،اس دن سے لے کر آج تک پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری آنے کی بجائے تلخیاں ہی تلخیاں پیدا ہوئی ہیں ان تلخیوں کو دور کرنے کے لیے حکمرانوں کو پاکستان کے عوام کے شانہ بشانہ ہو کر بھارت، افغانستان اورایران سے تعلقات پر اپنی خارجہ پالیسی پر ری وزٹ کرنا ہوگا تب جا کر پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی پاکستان میں دن بدن ہونے والی دہشت گردی میں کمی آئے گی اور پاکستان کے 25 کروڑ عوام جو دن رات ان حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں ان کو دانہ دنکا نصیب ہوگا۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ اعتزاز احسن ،سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ ،سہیل وڑائچ، مجیب الرحمان شامی افتخار احمد، نجم سیٹھی، دانیال قصوری، قاسم قصوری ،بختیار قصوری ، محترمہ زیبا ناز، شفیق اعوان ،میاں حبیب، پرویز بشیر ،امیر العظیم، سجاد میر اوردیگر نامور صحافیوں نے اس سیمینار میں شرکت کی۔