• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں تقریباً چھیاسٹھ زبانیں بولی جاتی ہیں جو ساری کی ساری کہیں نہ کہیں سمجھی بھی جاتی ہیں لیکن ان باقاعدہ زبانوں کے علاوہ بعض بولیاں ہیں جو بالکل بھی سمجھ نہیں آرہیں مثلاً گزشتہ سوموار 12؍مئی کو سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے سینیٹر کرنل طاہر مشہدی نے کہا کہ اگر الطاف حسین کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہ ملا تو کراچی ایک سال کے لئے بند کردیں گے۔ اس سے ایک دن پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک پر تحریک انصاف کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد نے کہا کہ عمران خان حکم دیں تو جعلی حکومت دس منٹ میں ختم ہوسکتی ہے لیکن شیخ صاحب نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کون سی حکومت عمران خان کے حکم سے تو خیبر پختونخوا کی حکومت ہی ختم ہوسکتی ہے، ادھر علامہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ آخری کال دینے والا ہوں، وہ کینیڈا سے وڈیو لنک کے ذریعے اپنے کارکنوں سے خطاب کررہے تھے۔
طاہر القادری صاحب کے پاس کوئی ایسا فارمولا ہے جس سے وہ تین دن میں نظام بدل سکتے ہیں بعد میں وہ کونسا نظام یہاں رائج کریں گے اس کا انہیں خود بھی پتہ نہیں ہے لیکن نظام کی تبدیلی کے لئے ان کا وزیراعظم ہونا ضروری ہے یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ علامہ نے کافی عرصے بعد کوئی اچھی بات بھی کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں گے ہمیں اس لئے اچھی بات یہ لگی کہ برسوں پہلے ایک پامسٹ نے ہمیں کہا تھا کہ ہم گورنر بنیں گے اب چار صوبوں میں ہماری باری تو نہیں آئے گی اس لئے ملک میں زیادہ سے زیادہ صوبے ہونے چاہئیں تاکہ ملک کی ہر سڑک پر وی آئی پی روٹ لگا رہے ٹریفک جام ہو اور یوں نہ صرف سی این جی بچائی جا سکے بلکہ مسائل میں گھرا پاکستان جو جنجال پورہ بنتا جارہا ہے پھر گورنر پورہ دکھائی دے، ہم بھی اسی دبڑ گھوس میں گورنر ہو جائیں گے۔ اس طرح بیرونی دنیا میں ایک اچھا تاثر جائے گا۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ایک وقت تھا رہنما اور قائد جاگتے تھے اور راتوں کو گشت کرتے تھے عوام سکون کی نیند سویا کرتے تھے اب رہنمائی کے دعویدار خود گرم، سرد، کینٹینر میں بیٹھتے ہیں اور عوام سڑکوں فٹ پاتھوں پر پڑے دکھائی دیتے ہیں ماہ مئی کئی حوالوں سے اہم ہے، آج سے 215برس پہلے 4؍مئی 1799ء کو سلطنت خداداد میسور کا حکمران ٹیپو سلطان سرنگاپٹم میں اسلام کی سربلندی اور عوام کے جان و مال کی حفاظت کرتے ہوئے مورچے میں بیٹھا شہادت کے اعزاز سے سرفراز ہوا تھا، گزرے کل اور آج کا تجزیہ کریں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ہمارا کس قدر شاندار ماضی تھا مگر ہم نے اپنا حال برا حال کرلیا ہے،یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو۔
کراچی میں ہمارے عزیز دوست جناب سید محمود خاور ہر سال باقاعدگی سے ٹیپو سلطان کی یاد میں کتاب شائع کرتے ہیں اب کی بار خاور صاحب نے بہت ہی خوبصورت کتاب جو 174صفحات پر محیط ہے ہمیں بھجوائی جس کا نام ہے ’’بے مثال حکمران ٹیپو سلطان‘‘ سید محمود خاور، ممتاز شاعر اور سیاسی رہبر حسرت موہانی کے نواسے ہیں، قائد اعظم کے قابل بھروسہ سیاسی ساتھی نواب محمد اسماعیل سید محمود خاور کے خالو تھے، خاور صاحب 19کتابوں کے مصنف ہیں، بوہرہ کمیونٹی کے عظیم مذہبی رہنما سیدنا محمد برہان الدین کی شخصیت کمیونٹی کی تاریخ، رسم و رواج، عقائد اور رسومات اردو اور انگریزی میں الگ الگ دو بھرپور کتابیں بھی لکھیں۔ اثر لکھنوی اور خورشید احمد جامی کی شخصیت اور فن پر آپ کے مقالات بھی ہیں ’’عہد ساز ہستیاں‘‘ میں عالمی شخصیات کے خاکے ہیں اردو میں سائنسی تکنیکی موضوعات پر بھی آپ کی کتابیں ہیں، اقوام متحدہ کی 55ویں سالگرہ پر محمود خاور کی کتاب ’’اقوام متحدہ کی کہانی‘‘ کو نیشنل بک فائونڈیشن نے شائع کیا تھا سید خاور صاحب کی پانچ کتابوں پر نیشنل بک فائونڈیشن ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
سید محمود خاور، مورخ، معلم، مترجم، مصنف اور صحافی ہیں، آپ 29؍مارچ 1945ء کو سید مسعود کے ہاں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے آپ کے جد امجد سید حبیب چھٹے نظام دکن میر محبوب علی خان کے عہد میں یمن سے ہجرت کرکے حیدرآباد دکن آئے تھے، محمود خاور عثمانیہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں 1963ء سے بچوں کے انگریزی ادب کا ترجمہ کرتے آرہے ہیں حکومت اتر پردیش نے بیسٹ پبلشر کا ایوارڈ بھی دیا، پاکستان ہجرت سے پہلے USIS لائبریری آف کانگریس واشنگٹن کو برصغیر سے اردو، فارسی، عربی اور علاقائی زبانوں کی کتابیں فراہم کیں، سید محمود خاور نے لائبریری میں مروجہ کارڈ سسٹم میں تبدیلی کرکے دہرے سسٹم میں بدل دیا ہے یعنی کارڈ کی ایک طرف زیر نظر کتاب کے مصنف اور پبلشر کے کوائف اور دوسری جانب مصنف کی دیگر کتابوں کا تعارف اس جدت نے اس قدر پذیرائی پائی کہ امریکی حکومت نے محمود خاور صاحب کو امریکی شہریت آفر کردی تھی مگر سید محمود خاور نے انکار کردیا تھا سید صاحب 1978ء میں بھارت چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے محمود خاور صاحب مقتدرہ قومی زبان میں اسسٹنٹ سیکرٹری بھی رہے اور پاکستان نیول کیڈٹ کالج کراچی میں لیکچرار بھی، سید محمود خاور کی خواہش ہے کہ حکومت پاکستان کوئی بڑا سرکاری ایوارڈ ٹیپو سلطان کے نام سے بھی دیا کرے۔
تازہ ترین