• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یکم اکتوبر 1924ءکو امریکی ریاست جارجیا میں پیدا ہونیوالے امریکا کے انتالیسویں صدر جمی کارٹر 100سالہ بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 29دسمبر 2024ءکو جہان فانی سے راہی ملک عدم ہو گئے وہ امریکی تاریخ میں سب سے طویل عمر پانے والے صدر تھے ۔

امریکی صدر اور سیاستدان کے علاوہ جمی کارٹر کی اور بھی مختلف حیثیتیں تھیں قلم کار کی حیثیت سے ان کی آٹو بائیوگرافی کی بھی دھوم ہے، وہ ناول نگار بھی تھے اور سفارت کار بھی، ایک کسان کی حیثیت سے جہاں مونگ پھلی اُگانا ان کی فیملی کی پہچان تھی وہیں وہ کاروباری تجربہ بھی رکھتے تھے، انجینئرنگ بھی کی، نیوی میں سب مرینز بھی رہے، ایوری یونیورسٹی میں خدمات بھی سرانجام دیں ماہر ماحولیات بھی تھے، ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازے گئے۔ وہ سینیٹر کے علاوہ جارجیا کے گورنر بھی رہے لیکن انکی سب سے بڑی پہچان انسان نوازی اور انسان دوستی تھی امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں وہ ہیومن رائٹس، امن و سلامتی اور ڈیموکریسی کیلئے خدمات کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے جارجیا میں کارٹر سینٹر قائم کر رکھا تھا ،جسکے اخراجات پورے کرنےکیلئےانہوں نے امریکی صدر کی حیثیت سے اپنی پنشن وقف کر دی تھی اور خود سادگی سے اسی پرانے چھوٹے گھر میں رہائش پذیر رہے جہاںسیاست میں آنے سے پہلےرہتے تھے۔کارٹر سینٹر کے تحت دنیا بھر میں ہیومن رائٹس، عالمی امن اور ڈیموکریسی کیلئےکام کیا جاتا ہے اس سینٹر سے کوئی انتالیس ممالک میں سو سے زیادہ انتخابات کی نگرانی کرتے ہوئے ان میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو واضح کیا گیا، انتخابی شفافیت کے ساتھ ساتھ اپنی شریک حیات روزالین کارٹر جن کا 2023 میں انتقال ہوا کےساتھ مل کر انہوں نے کئی خیراتی ادارے قائم کیے بے گھروں کیلئےگھر بنوائے، مسیحیت میں خدمت کا جو تصور ہے زندگی بھر انہوں نے اسے اپنانے کی کوشش کی مذہبی عقیدے کے علاوہ ان پر نرسنگ کے حوالے سے اپنی ماں کا بھی اثر تھا جس پر ہم بعد میں آتے ہیں پہلے بحیثیت پریزیڈنٹ ریاست ہائے متحدہ امریکا، ان کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر ۔

جمی کارٹر 20 جنوری 1977ءسے 20 جنوری 1981 ءتک وائٹ ہاؤس میں مقیم رہے۔ عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں یہ بڑا پرآشوب دور تھا اس دور میں 24دسمبر 1979ءکو سوویت فورسز افغانستان میں داخل ہوئیں، 11فروری 1979ءکو ایران میں امریکی اتحادی رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ کر آیت اللہ خمینی کا انقلاب آیا اور مڈل ایسٹ میں بھی انقلابی نوعیت کی جوہری تبدیلیاں رو پذیر ہوئیں بالخصوص کارٹر کی نگرانی میں مناہم بیگن اور انورسادات نے مل کر کیمپ ڈیوڈ میں 12روزہ خفیہ مذاکرات کے بعد 17 ستمبر 1978کو واشنگٹن میں معاہدہ کیا جس کی مطابقت میں دوسرا تکمیلی مرحلہ جسے Egypt-Israel peace Treaty کہا جاتا ہے، پر دستخط 26 مارچ 1979 کو واشنگٹن میں ہی ہوئے، حسب سابق اس پر دستخط سادات اور بیگن کے بعد کارٹر نے بطور گارنٹر کیے جس سے نہ صرف اسرائیل بلکہ عرب اور مسلم ورلڈ میں ایک نوع کا اشتعال یا ہیجان اٹھ کھڑا ہوا البتہ مصر کو اس کی خواہش کے مطابق پورا صحرائے سینا واپس مل گیا اور اسرائیل کم از کم مصر اور جارڈن کی جانب سے خاصی حد تک محفوظ ہو گیا لیکن اس کی قیمت صدر انور سادات کو چکانا پڑی اور بعد ازاں اسرائیلی قیادت کو بھی، علاوہ ازیں سوویت یونین سے تخفیف اسلحہ بالخصوص جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے کرنے کیلئے صدر جمی کارٹر نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن کامیابی کی بجائے الٹی سوویت جارحیت افغانستان تک بڑھ گئی تو جمی کارٹر ہی وہ امریکی صدر تھے جنہوں نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے کی بنیادیں رکھ دیں ،جس کی تکمیل صدر ریگن کے دور میں ہوئی اس کا فوری فائدہ پاکستان کو پہنچا جسکے ساتھ بھٹو کے آخری دور میں امریکی تعلقات بدترین سطح تک گر چکے تھے بھٹو برملا عوامی جلسوں اور پارلیمنٹ میں اپنے خلاف چلنے والی عوامی تحریک کو امریکی سفید ہاتھی کی کارستانی قرار دیتے تھے حالانکہ اس سے قبل پاکستان اپنے قیام سے لے کر نہ صرف امریکی کیمپ میں چلا آرہا تھا بلکہ امریکی امداد کے حصول میں شاید اسرائیل کے بعد اسی کا نام آتا تھا۔ سیٹو سینٹو اور بغداد پیکٹ کی تمام کارروائیوں میں پیش پیش تھا جنہیں پہلا دھچکا 1965 میں اس وقت لگا جب پاکستان نے وہ امریکی فائٹر ٹینک اور ہتھیار جو اسے سوویت جارحیت سے تحفظ کی خاطر فراہم کیے گئے تھے( لیاقت علی خان سے ہونے والے معاہدے میں باضابطہ طور پر یہ تصریح موجود تھی) بھارت کے خلاف استعمال کر ڈالے، گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو اس شرارت کا سرغنہ بھی یہی شخص تھا جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اٹھنے والے عوامی عتاب کا سارا نزلہ کارٹر انتظامیہ پر ڈالتا دکھائی دیتا ہے۔

پانچ جولائی 1977ءکو جب بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو جمی کارٹر کیلئے کسی طرح بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بناتے جبکہ یہاں آئین معطل کر دیا گیا اور پارلیمنٹ توڑ دی گئی تھی۔ انہی دنوں کی بات ہے جب سوویت یونین افغانستان میں بوجوہ اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہی تھی یا یہاں سے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبا رہی تھی، تب امریکیوں نے پاکستانی حکومت کیساتھ کچھ نرمی دکھائی لیکن نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے ان کا رویہ سخت ہی رہا اس تناؤ کا اندازہ جولائی 1978ءمیں امریکی انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات کے بعد ہمارے فنانس منسٹر غلام اسحٰق خان کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ’’امریکی ترجیحات کی کتاب میں ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ (جاری ہے)

تازہ ترین