سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیوایم کی رکنِ صوبائی اسمبلی فوزیہ حمید نے سوال اٹھایا کہ کتنے افسران نے شوکاز کے جواب دیے اور کتنے افسران کے خلاف کارروائی ہوئی؟ جرمانہ اتنا لگائیں کہ رشوت کے ریٹ نہ بڑھیں۔
اس موقع پر صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات گرانے کا کام آؤٹ سورس کریں گے تاکہ رشوت کے دروازے بند ہوں۔
ایم کیوایم کے رکن جمال احمد نے کہا کہ جب بلڈنگ بن رہی ہوتی ہے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے کہاں ہوتے ہیں؟ زلزلے کی صورت میں ذمے داری کس کے اوپر عائد ہو گی؟اشتہاری مہم چلانی چاہیے۔
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کہا ہم نے اشتہارات دیے ہیں، کوشش کریں گے کہ اشتہارات دوبارہ دیں، یہاں پر موجود نمائندے بھی سندھ کے لوگوں کو آگاہی دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضلع سینٹرل کے علاوہ پورے کراچی کا ایشو ہے، کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی تعمیرات ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکنِ اسمبلی عادل عسکری نے سوال کیا کہ شہر میں غیر قانونی تعمیرات کی ذمے داری کس کی ہے؟
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ یہ گند 17 سال سے پہلے کا ہے، جب ایم کیو ایم بھی حکومت میں ہوا کرتی تھی۔
فوزیہ حمید نے کہا کہ سندھ میں کون نہیں جانتا ہے کہ ایس بی سی اے سب سے زیادہ کرپٹ محکمہ ہے۔
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیمپریشن کا رول کسی تیسری پارٹی کو دے دیں، غیر قانونی تعمیرات کی معلومات آ جائے تو توڑنے کی ذمے داری ہم کسی اور کو دیں گے، ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں، ہماری نیت ٹھیک ہے۔
جماعتِ اسلامی کے رکن محمد فاروق نے کہا کہ ایس بی سی اے کے بس کی بات نہیں ہے، یہ شہر بہت بڑا ہے، بہتری کے لیے کوئی آن لائن سسٹم لے کر آئیں، ملیر ایکسپریس وے کے اطراف غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں، شاہ فیصل ٹاؤن میں کل افسران کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے اس پر ایکشن لیں۔
صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ ہمارے پاس آن لائن شکایت کا سسٹم موجود ہے، 670 شہری آن لائن شکایات کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رکن اعجاز الحق نے کہا کہ غیر قانونی واٹر کنکنشن کے خلاف 50 سے 60 خطوط ایم ڈی کو لکھے ہیں، کنکشنز کیوں نہیں کاٹے جا رہے؟
وزیرِ بلدیات سعید غنی نے جواب دیا کہ غیر قانونی واٹر کنکنشن کے معاملے کو دیکھ لوں گا، اگر کوئی کارروائی ممکن ہو گی تو میں ضرور ایکشن لوں گا۔
ایم کیوایم کے رکن طحہٰ احمد خان نے کہا کہ لاڑکانہ والوں کی شکایات ہیں کہ برتھ، ڈیتھ اور میرج سرٹیفکیٹ کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ موجود ہے۔
وزیر بلدیات نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ جو سرویز ہوتے ہیں وہ لوگوں کی حقیقی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے، سروے کی بنیاد پر حتمی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے، یہ ساری ہوائی باتیں ہوتی ہیں۔
ایم کیوایم کے رکن محمد دانیال نے کہا کہ کراچی کے 50 فیصد سے بھی کم لوگوں کو پانی ملتا ہے، موٹر وے پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بن رہی ہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ بنیادی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، ہمیں لوگوں کو قانونی طور پر سپورٹ کرنا ہو گا، غیر قانونی تعمیرات کو روکنا ہو گا، نئی آبادیاں ہونی چاہیے۔
ایم کیو ایم کے رکن انجینئر محمد عثمان نے کہا کہ اس وزارت کی تقسیم ہونا چاہیے، گلستانِ جوہر کی آبادی 3 لاکھ ہے، جہاں 3 ایم جی ڈی پانی ملتا ہے۔
انجینئر محمد عثمان نے سوال کیا کہ پانی کی تقسیم کا کیا فارمولا ہے؟
وزیرِ بلدیات نے جواب دیا کہ کراچی کو جتنے پانی کی ضرورت ہے اتنا میسر نہیں ہے، کوئی مسئلہ ہو جاتا ہے تو شہریوں کو تکلیف دیکھنی پڑتی ہے، اکثر علاقوں میں لوگوں کو ضرورت سے کم پانی ملتا ہے۔