کچھ باتیں زندگی میں بہت پہلے سیکھ لینی چاہئے تھیں مگر کسی نے سکھائی ہی نہیں، اسکول میں ہمیں Fusion اور Fission Reaction پڑھا دیا گیا اور ہم بے حد خوش ہوئے کہ ایٹم بم بنانے کا فارمولہ ہم نے سمجھ لیا، مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ زندگی کے بنیادی فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں، فنانشل ڈسپلن کس چڑیا کا نام ہے اور عملی زندگی میں آگے بڑھنے کا طریقہ کیا ہے! خود ہی ہاتھ پیر مار کر، اِدھر اُدھر سے سُن کر کچھ اُلٹا سیدھا کیا، کبھی کامیاب ہو گئے اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آج اگر میرے بس میں ہو تو گیارہویں جماعت میں کم از کم دو نئے کورس متعارف کرواؤں، ایک جس میں سکھایا جائے کہ زندگی میں فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں اور دوسرا جس میں بتایا جائے کہ عملی زندگی میں مالی نظم و ضبط کیسے قائم رکھنا ہے۔
زندگی میں بہت سے فیصلے تعصبات یا مغالطوں کا شکار ہو کر غلط ہو جاتے ہیں، جوانی میں تو احساس نہیں ہوتا لیکن بعد میں ہر فیصلے کی قیمت چکانی پڑتی ہے، اور یہ تعصبات یا مغالطے اِس قدر غیر محسوس طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں کہ اچھا خاصا سیانا بندہ بھی سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کب اور کیسے اِن کے دام میں آگیا۔ ہمارے بچپن میں گلیوں بازاروں میں پشتون بھائی قالین فروخت کیا کرتے تھے، گاہک بہت سوچ بچار کرکے اُس کی قیمت کا چوتھا حصہ بتاتا جس کے جواب میں پٹھان ہاتھ پھیلا کر کہتا ”مردکا بچہ ہے تو دیو‘‘۔ چار و ناچار گاہک کو وہ قالین خریدنا پڑ جاتا۔ اِس بات کے لطیفے بھی بن چکے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ قالین بیچنے والا دراصل انسانی نفسیات کا فائدہ اٹھاتا تھا، وہ Anchoring bias سے کام لیتا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معاملے کے بارے میں جو بات سب سے پہلے ہمارے ذہن میں راسخ کر دی جائے ہم اُس پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ مثلاً نوکری کے متلاشی کسی نوجوان کو اگر ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی جائے جبکہ اُس کی تعلیمی قابلیت اور نوکری کی نوعیت کے اعتبار سے یہ تنخواہ دس گنا کم ہو تو پھر بھی وہ غیر شعوری طور ایک لاکھ روپے ذہن میں رکھ کر ’بارگین‘ کرے گا کیونکہ ایک لاکھ کی رقم اُس کے ذہن میں بیٹھ جائے گی۔ زندگی بہتر کرنی ہے تو اِس مغالطے سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔
اسی طرح نوجوانی میں کاروبار کرنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے مگر کوئی سکھانے بتانے والا نہیں ہوتا۔ رہی سہی کسر موٹیویشنل اسپیکر پوری کر دیتے ہیں جنہوں نے کے ایف سی کے بابے کی کہانی رٹی ہوتی ہے کہ کیسے اُس نے ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر میں دھکے کھا کر بالآخر کامیابی حاصل کی تھی۔ جوانی میں چونکہ جذبہ اور جنون عروج پر ہوتا ہے اِس لیے خوش فہمی بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے، ایسے میں بندہ سوچتا ہی نہیں کہ اُس کا کاروبار ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ اسے خوش فہمی کا مغالطہ کہتے ہیں جس میں کوئی شخص خواہ مخواہ یہ سمجھتا ہے کہ جو ناکامیاں دوسروں کے حصے میں آئیں وہ اُس کے حصے میں نہیں آئیں گی۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ امریکہ میں نئے شروع ہونے والے غالباً ایک تہائی کاروبار کامیاب ہوتے ہیں جبکہ باقی بند ہو جاتے ہیں۔ اِس مغالطے سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اُس کام میں ناکام ہونے والوں کی شرح معلوم کریں اور پھر یہ پتا چلائیں کہ آپ اُن نالائقوں سے کیسے مختلف ہیں اور کیوں ناکام نہیں ہوں گے۔ خدا نے چاہا تو چاند سا بیٹا پیدا ہوگا۔
پرانی بات ہے میں نے کسی ڈیزائنر سے ایک سوٹ اور ایک واسکٹ سلوائی۔ جب کپڑے تیار ہوئے تو میں نے واسکٹ پہن کر دیکھی، بہترین سلی ہوئی تھی، اُس کی فٹنگ بہت عمدہ تھی، میں نے تعریف کی تو ٹیلر نے مسکرا کر کہا کہ سر یہی تو ہماری Niche ہے۔ پھر میں نے سوٹ ٹرائی کیا تو اُس کا کوٹ مجھے پھنس گیا، اِس مرتبہ میں نے ٹیلر کی طرف دیکھا تو وہ سر ہلا کر بولا ’’ سر، یہ اُس نے کمر سے تنگ کر دیا ہے، میں ٹھیک کروا دوں گا۔‘‘ گویا وہی ڈیزائنر جس نے پہلے واسکٹ کی تعریف قبول کی اسی ڈیزائنر نے کوٹ کی غلطی اپنے کاریگر کے سر منڈھ دی۔ انگریزی میں اسے Self serving bias کہتے ہیں۔ اگر آپ اِس سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ صرف کامیابی کا سہرا ہی اپنے سر نہیں باندھنا، ناکامی کی ذمہ داری بھی تسلیم کرنی ہے۔
دوسرا کورس کالجوں میں مالی نظم و ضبط کا ہونا چاہیے۔ آج اگر آپ تیس چالیس لوگوں کا ایک گروپ بنائیں اور اُن سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے اسکول میں کھیلوں میں حصہ لیا تھا، کیا انہیں کپڑے استری کرنے آتے ہیں، کیا انہیں کالج میں موٹر سائیکل چلانی آتی تھی، تو غالب امکان یہی ہے کہ اکثریت اِن سوالات کا ہاں میں جواب دے گی۔ لیکن انہی لوگوں سے اگر آپ پوچھیں کہ ٹی بلز کیا ہوتے ہیں، گورنمنٹ سیکوریٹیز اور بانڈز میں کیسے سرمایہ کاری کی جاتی ہے، میوچل فنڈز میں پیسہ لگانا بہتر ہے یا براہ راست اسٹاک ایکسچینج میں، منی مارکیٹ کیا ہوتی ہے۔تو شاید دو چار ہی مشکل سے جواب دے پائیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس لیے کہ یہ باتیں اسکولوں کالجوں میں نہیں پڑھائی جاتیں، لوگ اپنی خون پسینے کی کمائی اُلٹی سیدھی اسکیموں میں لگاتے ہیں اور پھر پیسہ لُٹانے کے بعد تمام عمر پچھتاتے ہیں۔ ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ کہیں کہ یہ پیچیدہ معاملات ہیں اور اِنہیں سمجھنے کیلئے مالیاتی ماہرین ہوتے ہیں جبکہ عام بندہ بیچارہ کہاں اِس قابل کہ اِن کی فیسیں ادا کرکے سرمایہ کاری کرتا پھرے۔ یہ بات آج سے دس بیس سال پہلے شاید درست ہو مگر آج کے دور میں جب سب کچھ انگلی کے ایک اشارے پر کھُل جاتا ہے تو یہ کہنا درست نہیں۔
یہ تمام باتیں کامن سینس ہیں، ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو اوائل عمری میں ہی بتا دی جائیں تاکہ پاکستان جیسے ملک میں اُن کی زندگی میں مسائل کم ہوں اور آسانیاں زیادہ۔ اشفاق صاحب کہا کرتے تھے لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرو، تو آج یہی کوشش کی ہے۔
کالم کی دُم: موٹیویشنل اسپیکرز کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اِن لوگوں نے نوجوانوں کو نصابی تعلیم سے ہٹ کر زندگی کو کامیاب بنانے کے بہرحال کچھ نہ کچھ گُر ضرور بتائے ہیں، یہ فدوی اُن سے اختلاف ضرور کرتا ہے مگر اِس سے انکار نہیں کہ اب نوجوانوں کو فیصلہ سازی سے لے کر فنانشل ڈسپلن تک، ہر قسم کی رہنمائی یوٹیوب پر موجود کچھ مفید لیکچرز سے مل سکتی ہے جو پہلے مفقود تھی۔ اِن سے فیض ضرور اٹھائیں مگر احتیاط لازم ہے، بعض اوقات ضرورت سے زیادہ فیض پریشانی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔