مصطفی ٰکمال اتا ترک نے جمہوریہ ترکی کی بنیادتو رکھی لیکن آئین و قانون کا ایسا مضبوط شکنجہ بنایاکے آنے والے وقتوں میں اس سے نکلنا ایسا محال ہوا کہ اس کے لئے طویل جدوجہد کا نیا باب رقم ہوا۔ان ہی بندشوںکی پہلی تہہ جب عدنان میندریس نے وزیراعظم بننے کے بعد کھولی اور اذان کو ترکی کے بجائے دوبارہ عربی میں بحال کیاتو اس کو اس کی قیمت اپنی جان دے کر چکانا پڑی۔فوج کو یہ قطعا ًقابل قبول نہ ہوا۔عدنان میندریس نے اپنی جان دے کر جس سفر کاآغاز کیا اس کو اپنی منزل تک پنچانے کے لئے 60سال کا عرصہ بیت گیا۔نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں کے مصداق اس تبدیلی میں اتنا عرصہ لگاکہ اکثر وہاں سے واپسی ہوئی جب لب بام دوچارہاتھ رہ جانے کا معاملہ تھا۔پروفیسرنجم الدین اربکان نہ تو سیاست دان تھے اور نہ ہی کوئی مذہبی رہنمالیکن آج کاترکی ان کا مرہون منت ہے۔وفاقی وزیر مذہبی امو ر سردار محمدیوسف کی سربراہی میں ایک وفدنے چند روز قبل ترکی کا دورہ کیا۔وزارت مذہبی امور جس کو ترکی میں دیانت کہا جاتا ہے۔ اس کے صدر ڈاکٹر مہمت گورمیز کے ساتھ ملاقات نہایت اہم رہی ۔ ڈاختر مہمت گورمیز کو گلہ تھا کہ پاکستان اور ترکی گہرے دوستانہ روابط رکھتے ہیں۔لیکن ابھی دونوں ممالک کی مذہبی امور کی وزارتوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ترکی کے امام خطیب اسکول جدید دینی ماڈل مدارس ہیں جن میں فزکس ، کیمسٹری ، طبعیات ، قرآن ، حدیث ، فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ہر شہر میں ایک مفتی ہے۔اور ان کے نیچے ہر ضلع اور ٹائون کا مفتی الگ ، مساجد کا انتظام بھی ان کے ماتحت ہے۔ مساجد کے امام جدید پڑھے لکھے ، پینٹ کوٹ ٹائی کے ساتھ ، خوبصورت قرآت ، دلنشیں واعظ ، تمام امام اور خطیب سرکاری سطح پر نہایت معقول مشاہراہ پاتے ہیں ۔ سردار محمد یوسف نے تفصیل سے پاکستان کے حالات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وزارت مذہبی امور اس سے قبل حج تک محدود تھی لیکن انہوں نے سارے شعبے زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ گرد لگی فائلیں کھل رہی ہیں ۔ انہوں نے امام خطیب اسکول کے قیام ، ٹریننگ پروگرام ، اسکالر شپ اور دونوں ملکوں کے درمیان وفود کے تبادلے پر بات کی جس کو ڈاکٹر مہمت گوردیز نے سراہا اور یقین دلایا کہ وہ ان سب امور پر کام کریں گے ۔ اور جلد پاکستان کا دورہ بھی کریں گے ۔ ڈائریکٹر جنرل مہمت پچاچی ، اردال اتلی ، سبھاش مہمت ، ڈاکٹر پر لاک نے اس کو کامیاب بنانے کیلئے اہم کردار ادا کیا ۔ سردار محمد یوسف پر عزم ہیں کہ وہ وزارت مذہبی امور کو صحیح معنوں میں فعال کریں ۔ ترکی کا یہ دورہ بھی اس سلسلہ کی کڑی ہے ۔ بات ہو رہی تھی نجم الدین ابکان کی ، نجم الدین مکینیکل انجینئرتھے جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔نہایت محنتی اور اپنے کام میں بے پنا مہارت رکھتے تھے۔ جرمنوں نے ایک ٹینک بنایا۔لیکن اس میں ایک نقص رہ گیاتھا۔نقص یہ تھا کہ سخت سردیوں کے موسم میں انجن آئل جم جاتا تھا ۔ اتنے کامیاب انجن کے اس نقص نے سارے کام کو بیکار کردیا تھا ۔ اربکان کے علم میں جب یہ بات آئی تو انھوں نے اس پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔دن رات کام کرنے کے بعد انھوں نے یہ نقص دور کر دیا۔جرمنوں کی خوشی کی انتہانہ رہی۔اربکان ان کے محسن ہو گئے۔اسی دوران جب اربکان ایک دفعہ ترکی آئے۔تو ایرپورٹ پر انھوں نے دیکھا کہ پانی کے چھوٹے چھوٹے انجن ہر طرف پڑے ہیں۔دریافت کیاکہ یہ کیا ہے؟تو پتہ چلا کے یہ انجن جرمنی سے درآمد کیے گئے ہیں۔اربکان کیلئے یہ واقعہ ان کی زندگی تبدیل کرنے کا سبب بن گیا۔انھوں نے سوچا کہ جہاں میں ٹینک بنا کرآیا ہوں وہاں سے میرے ملک میں یہ چھوٹا سا انجن درآمد ہو رہا ہے۔اربکان نے ایرپورٹ پر ہی واپسی کی کشتیاں جلا دیں۔اور اپنے ملک کے لئے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ وہ دور تھا جب منی مینوپلیٹرز تیزی کے ساتھ اپنے کام کر رہے تھے۔اربکان تو بنیادی طور پر معیشت دان تھے۔ جب انھوں نے ملک کے حالات کا بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کے سیاست دان اپنا کام ٹھیک طور پر نہیں کررہے ہیں۔ ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے۔تب انھوں نے اپنی پارٹی بنائی ۔ایک طویل جدوجہد کے بعد اور اس جدو جہد میں بے شمار اتارچڑھاؤ شامل ہیں۔بالآخر وہ وزیر اعظم بن گئے۔تانسوچلران کی حلیف تھیں۔لیکن بد قسمتی سے انہوں نے جوں ہی اپنے کام کا آغاز کیاتوفوج پھران کے راستے میں آگئی۔فوج کے لئے ان کی اصلاحات قطعا ًقابل قبول نہیں تھیں۔اس نے تانسوچلر پہ دباؤ ڈالا کہ وہ اربکان کا ساتھ چھوڑ دیں۔یوں حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔فوج نے اسی پر بس نہیں کیا۔اربکان کی پارٹی پر پابندی لگادی۔ارکان نے نئی پارٹی بنائی فوج نے پھر پابندی لگادی۔ترکوں کیلئے یہ اب یا کبھی نہیں والا معاملہ تھا ۔ جب مایوسی حدوں کو چھونے لگی تو بے مثال حکمت کار اور استنبول کے میئر کے طور پر اپنا لوہا منوانے والے رجب طیب اردگان آگے آئے۔ اردگان نے اس کوجنگی حکمت عملی کی طرح لیا اور نعرہ لگایا کہ میں تو لبرل ہوں اور ترکی کو لبرل بنانا چاہتا ہوں ۔ آئو میرا ساتھ دو ... اردگان کی حکمت علی کامیاب ہوئی ۔ 2001ء میں اردگان نے نئی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ اردگان نے تعلیمی اور سیاسی دونوں میدانوں میں نجم الدین اربکان سے اکتساب فیض کیا تھا ۔ امام خطیب اسکول کے پڑھے ہوئے اس مرد کار نے ایسی چال چلی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کر گئی ۔ 2012 ء کے الیکشن میں ان کی نئی جماعت کامیاب ہو گئی ۔ اردگان نے پہلی کامیاب مدت کے بعد اگلی مدت میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ عدنان میندریس نے جس سفر کا آغاز کیا تھا ۔ جو خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہوا ۔ آئین میں ترمیم ہو گئی ۔ فوج کو اس کی حدود تک پابند کر دیا گیا ۔ اردگان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ کیسے کھیلا جائے ۔ کون سی طاقتیں ہیں جو ملکوں کو اٹھاتی اور گراتی ہیں ۔ ان طاقتوں کیساتھ کیسے نپٹا جا سکتا ہے۔ نئے انتخابات پھر آ رہے ہیں ۔ صدر جس کو پہلے ارکان پارلیمنٹ منتخب کرتے تھے اب براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو گا اور غالب امکان ہے کہ اردگان صدر کا الیکشن لڑیں ۔ اردگان کو کوئی کیسے شکست دے سکتا ہے ۔ ہر طرف سڑکیں ، ٹنلز، انڈر گرائونڈ سڑکوں کا جال ۔ اردگان کا ایک ہی منصوبہ ایسا ہے جو ترکی کو سو سال آگے لے جائیگا وہ ہے نیو استنبول ایئر پورٹ ۔اس کی تعمیر پر 42 بلین ڈالر خرچ آئیگا ۔ جب دس لاکھ لوگ روزانہ یہاں سے گزریں گے تو ترقی کے جس سفر کا آغاز ہو گا اس کو کوئی کیسے روک سکتا ہے ۔ اردگان ناقابل شکست تو ہو گا۔