• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائیگا...!

آج صبح موبائل فون دیکھا تو اُس پر سبوخ سیّد کا پیغام تھا ’’سلام، سر اِس پر ضرور لکھیں۔‘‘ پیغام کے ساتھ اُن کی تحریر تھی۔ جو لوگ سبوخ کو نہیں جانتے اُن کیلئے عرض کیے دیتا ہوں کہ سبوخ ایک صحافی ہیں، آئی بی سی اردو ڈاٹ کام کے نام سے خبروں اور تجزیوں پر مبنی ویب سائٹ چلاتے ہیں، صاحب مطالعہ ہیں، مذہبی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ میں تو انہیں اچھا خاصا عالم دین سمجھتا ہوں، مزاج چُلبلہ ہے، طبعیت میں شوخی ہے، شخصیت میں شرارت ہے، بات بات پر قہقہے لگاتے ہیں اور دوستوں کی محفل میں پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں۔ اپنے پیغام میں انہوں نے جس موضوع کی بات کی تھی اُس پر لکھنے کے بارے میں پہلے سے ہی سوچ رہا تھا، لیکن جب اُن کا مضمون پڑھا تو کانپ اٹھا، مضمون کا عنوان تھا ’’مانسہرہ : جابہ کی شہید رابعہ کا چچا اور رسول اللہ ﷺ کا چچا‘‘۔ جوں جوں میں مضمون پڑھتا چلا گیا میری آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھاتا چلا گیا۔ بہت کم تحریریں ہوتی ہیں جو آپ کو اِس طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں جیسے سبوخ کی اِس تحریر نے مجھے جھنجھوڑا۔ دل تو میرا چاہ رہا ہے کہ میں وہ مکمل مضمون یہاں نقل کر دوں، مگر یہ ممکن نہیں، فقط درمیان کے دو پیراگراف ملاحظہ ہوں:

’’میں نے اپنی پوری زندگی میں بے گناہ لوگوں کو قتل ہوتے دیکھا۔ لکھتا ہوں تو واقعات کی ٹائم لائن دماغ میں کھل جاتی ہے۔ ایبٹ آباد کی وہ لڑکی یاد آئی، جسے اپنی دوست کو محبت میں سپورٹ فراہم کرنے پر حویلیاں میں گاڑی میں باندھ کر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی چیخیں پورا علاقہ سنتا رہا لیکن سارے بے غیرت خاموش رہے۔ آج تیسرا دن ہے، دل اداس ہے۔ جب سے مانسہرہ کے علاقے جابہ میں ایک معصوم بہن کے قتل کی خبر سنی ہے۔ کچھ دوستوں نے پوچھا تو اسی وقت عرض کیا تھا کہ ’مانسہرہ میں سید زادی کو پسند کی شادی پر سولہ ماہ کی بیٹی سمیت قرآن پڑھتے ہوئے جمعے کے روز قتل کرنے والے آل رسول ﷺ نہیں، آل ابوجہل ہیں‘۔ عمر اور رابعہ اسکول میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ لڑکے نے کئی بار رابعہ کے گھر رشتہ بھیجا، رابعہ بھی اپنے خاندان کو بتاتی رہی، لیکن یہ ’خاندانی‘ درندے لڑکی کی مرضی کے بجائے اپنے من پسند بندے کے آگے لڑکی کو ڈال اس کا ریپ کروانا چاہتا تھا۔ لڑکی کو جب اپنا گھر ہی اپنے لیے ہی غیر محفوظ لگا تو اس نے اس جبری شادی ’ریپ میرج‘ کے بجائے اپنی عزت بچانے کیلئے قانون کا سہارا لیا اور عدالت میں جا کر باقاعدہ شرعی اور قانونی طریقے سے نکاح کیا۔ نکاح کے بعد عمر اور رابعہ ’خاندانی‘ درندوں سے جان بچا کر کراچی چلے گئے۔ ڈیڑھ برس پہلے لڑکا حصول روزگار کیلئے سعودیہ چلا گیا۔ لڑکے کی ماں یہ سوچ کر کہ بے غیرت سے بے غیرت مرد بھی عورت اور بچی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا، اپنی پوتی اور بہو کو لیکر مانسہرہ آ گئی لیکن جمعے کے روز اسے معلوم ہوا کہ ان کی رگوں میں رسول اللہ ﷺ کا نہیں، ابو جہل کا خون دوڑ رہا ہے....انکے ساتھ جرگے کرنا حرام ہے، انہیں فی الفور تختہ دار پر لٹکانا چاہیے اور ایسے فسادیوں کے جنازے بھی نہ پڑھے جائیں۔ انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ کی ہے۔ ہماری اس مظلوم بہن اور بیٹی کو قبر سے نکال کر دوبارہ اس کا عزت و احترام سے جنازہ پڑھا جائے... اگر کوئی لکھنے والا آج بھی خاموش ہے تو اسے اپنا قلم توڑ کر ’شلواروں کے نیفوں میں ناڑے‘ ڈالنے کیلئےوقف کر دینا چاہیے... جمعے کے روز جابہ کی اس بستی میں سیدہ رابعہ کے سامنے قرآن کھلا ہوا تھا۔ ’خاندانی‘ درندے اندر داخل ہوئے، انہوں نے قرآن کی توہین کی، رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی توہین کی۔ جمعہ سید الایام کی توہین کی، چیختی ہوئی ماں بیٹی کو لہو لہان کیا۔ اگر یہ اصلی سید زادے ہوتے تو جمعے کے روز نماز کے وقت مسجد میں ہوتے، یہ کچھ اور تھے... یہ قاتل تو قرآن پڑھتی بیٹی کو قتل کر کے بے آبرو کرتے ہیں اور پھر جتھہ بنا کر لاشیں چھین لیتے ہیں، انہیں بے گور و کفن پھینک دیتے ہیں۔ ماں بیٹی کی آخری سانس نکلی تو ظالموں کی بستی میں قرآن کے اندر ماتم برپا ہوا، بستی کے ہر خاموش حامی پر لعنتوں کی صدا بُلند ہوئی، سسکیوں میں ٹھنڈے ہوتے ہوئے جسموں سے آواز آئی ،وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (7) وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ (8) بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ (ترجمہ) اور جب جانوں کو جوڑا جائے گا۔ اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔ کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟‘‘

میں نے اِس اِقتباس میں سے کچھ حصہ حذف کر دیا ہے کہ میں سبوخ جتنا بہادر نہیں البتہ اتنا ضرور لکھ سکتا ہوں کہ جن بدبختوں نے یہ بہیمانہ قتل کیا ہے اصل میں وہ توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور اُن پر دیگر دفعات کے ساتھ ساتھ یہ مقدمہ بھی بننا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کوئی انسان اتنا سفاک کیسے ہو سکتا ہے؟ مذہب کی یہ تعلیمات نہیں اور کلچر بھی یہ نہیں سکھاتا، تو پھر یہ درندے ہمارے معاشرے میں کہاں سے آ گئے ہیں؟ ایک خیال یہ ذہن میں آیا کہ ہمارے سماج میں غیرت اور بے غیرتی کا نام نہاد تصور اِس کی وجہ ہے لیکن پھر وہ فلم ’امریکن مرڈر: دی فیملی نیکسٹ ڈور‘ یاد آگئی جس کی کہانی سچے واقعات پر مبنی تھی۔ اُس دستاویزی فلم میں کولراڈو سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کرس واٹس اپنی حاملہ بیوی اور دو چھوٹی بچیوں کو قتل کر دیتا ہے اور قتل کرنے کے بعد بچیوں کی لاشیں کھولتے ہوئے تیل کے ٹینک میں پھینک دیتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ذہن میں آیا کہ ریاست اور معاشرے کا اِس قتل پر کیا ردّعمل ہے؟ ریاست کا ردّعمل پتا چلانا کچھ مشکل نہیں، وہ اِس وقت سٹیج ڈراموں اور فارم ہاؤسز پر چھاپے مار کر فحاشی ختم کر رہی ہے۔ اور رہا معاشرہ تو وہ اِس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ اب اِس قسم کی خبروں کو ’سکرول‘ کرتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ نہ کسی مذہبی جماعت نے قیامت کی دہائی دی اور نہ کسی انگریزی بولنے والے لبرل نے انگڑائی لی۔ مذہبی جماعتیں جو ذرا ذرا سی بات پر جلوس نکال لیتی ہیں، شاہراہیں بند کر دیتی ہیں اور دھرنے دے کر وزرا کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیتی ہیں اب یوں بیٹھی ہیں جیسے اِس معاملے سے انہیں کوئی سروکار ہی نہ ہو حالانکہ وہ پانچ بدبخت صرف قتل کے ہی نہیں توہین مذہب کے بھی مجرم ہیں۔ اور رہا لبرل طبقہ، تو وہ صرف ’نور مقدم‘ یا ’سارہ انعام‘ کے قتل پر ہڑبڑا کر اٹھتا ہے، کیا مانسہرہ کی سید زادی کی وہ ’کلاس‘ نہیں جس کا درد ہمیں محسوس ہو۔

انسان کا بھیس بنائے ہوئے جن درندوں نے یہ قتل کیا، وہ گرفتار ہو چکے، انہیں سزا بھی مل جائے گی، شاید پھانسی بھی چڑھ جائیں، لیکن اِس ظلم کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ کاش انہیں ایسی سزا ملے کہ یہ روزانہ موت کی بھیک مانگیں اور انہیں موت نصیب نہ ہو۔ یہ اِس دنیا میں تو ممکن نہیں، روزِ محشر، البتہ، اِن کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے، کھال کھینچ لینے والی۔

تازہ ترین